رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله عبدالله جوادی آملی نے اپنے ہفتگی درس اخلاق میں نہج البلاغہ کی ۷۶ ویں خط کی تشریح بیان کرتے ہوئے بیان کیا : امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے عبد اللہ ابن عباس کے اس خط کے ابتدا میں نصیحت فرمائی ہے کہ تین مواقع پر لوگوں سے ملاقات ، سرکاری جلسے اور فیصلے کے مقام پر افسرانہ اخلاق کا خیال رکھیں اور ہمیشہ ہشاش و بشاش چہرے کے ساتھ رہو ۔
قرآن کریم کے مفسر نے بیان کیا : خط کے دوسرے حصے میں بیان ہوا ہے کہ امام علیہ السلام نے عبد اللہ بن عباس کو « نفس پرستی ، هوس و کینہ » سے دوری کی تاکید کی ہے ، لیکن یہ حصے نہج البلاغہ میں بیان نہیں ہوا ہے ؛ ہوس و نفس پرستی انسان کا اندرونی دشمن ہے اور پہلے مرحلہ میں دین اور اس کے بعد انسان کے آبرو کو ختم کر دیتا ہے ، جو انسان دین دار و آبرو مند نہیں ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔
انہوں نے بیان کیا : اس اندرونی دشمن کو «وبا» سے شباہت دی گئی ہے ، اس تشبیہ کی وجہ یہ ہے کہ «وبا» انسان کے ارادے کی طاقت کو سلب کر کے انسان کی آبروریزی کا سبب ہوتا ہے ، کیوں کہ جو اپنے ارادے کو کھو دیتا ہے دوسروں کو اس کا خیال کرنا چاہیئے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے معاشرے کے جوانوں کو خطاب کر کے بیان کیا : ہمارے ملک کے جوانوں کو چاہیئے کہ سائیبر اسپیس کو حقیقی جانیں کیوں کہ جہاں بھی فکر و سمجھ کو بدلا جائے وہ حقیقی میدان ہے ، اس وجہ سے جوانوں کو چاہیئے کہ اس اسپیس میں جو ان کے منفعت میں ہے اس کو حاصل کریں اور جو مسائل غیر اخلاقی ہوں اور جو انسان کو منحرف کرنے کے لئے دشمن کی طرف سے جال بچھائی گیئیں ہیں اس کو چھوڑ دیں ، کیوں کہ اگر اس میدان کو کنٹرول نہیں کیا جائے تو انسان کے دین کو اس سے چھین لے گا اور اس کی آبروریزی کا سبب ہوگا ۔
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد نے اس اشارہ کے ساتھ کہ قرآن کریم کی آیات کے نص کی بناد ہر انسان موت کو مار دیتا ہے نہ یہ کہ موت انسان کو مارتا ہے بیان کیا : موت قید سے آزاد ہونا ہے نہ یہ کہ انسان موت سے نابود ہوتا ہے ؛ انسان ایک موجودی ابدی یعنی ہمیشگی ہے اس بنیاد پر بہتر نہیں ہے اور زیبا نہیں دیتا ہے کہ انسان دنیا کی مختصر و کوتاہ زندگی کو گناہ کر کے اپنے ابدی زندگی کو تباہ کرے ۔
انہوں نے وضاحت کی : یہ کہ انسان کبھی اپنے جوانی یا نوجوانی کے زمانہ میں مرتکب ہوئے گناہ کو یاد کرتا ہے یہ ایک الہی نعمت ہے کیوں کہ خداوند عالم انسان کو یاد دلاتا ہے کہ استغفار کرے اور اپنے گناہ کو معاف کرا لے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے نہج البلاغہ کے خط نمر ۷۷ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : یہ خط بھی عبد اللہ ابن عباس سے خطاب ہوا ہے اور حضرت علی علیہ السلام نے قرآن کریم سے مسلمانوں کے دشمن سے مقابلہ میں مناظرہ کا طریقہ سیکھایا ہے اور فرمایا ہے کہ خوارج اور جو لوگ حسبنا کتاب اللہ کا نعرہ لگاتے ہیں ان سے جدل نہ کرو کیوں کہ قرآن کریم میں کلی نظریہ بیان ہوا ہے جس کی مختلف تفسیر ہے ، تم کچھ کہوگے وہ لوگ کچھ اور معنی نکالے نگے ، بلکہ تم ان لوگوں سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت سے بحث و گفت و گو کرو کہ ان لوگ کے لئے سوائے قبول کرنے کے کوئی دوسرا راستہ نہی ہے ۔ /۹۸۹/ف۹۷۰/