رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تاریخ اسلام کے حوالے س نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام حضر محمد مصطفی (ص) حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ " علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں " .کبھی یہ کہا کہ " میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں" . کبھی یہ کہا " آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے" . کبھی یہ کہا" علی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی" . کبھی یہ فرمایا: " علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے " ۔
کبھی یہ فرمایا: وہ " خدا اور رسول (ص)کے سب سے زیادہ محبوب ہیں " خداوند متعال نےحضرت علی (ع) کو مباہلہ کے میدان میں نفسِ رسول قراردیا. عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجدکے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے آپنا بھائی قرار دیا۔ اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس جس کا میں مولا و آقا ہوں اس کے علی مولا و آقا ہیں ۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد پیش کی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر اسلام نے علی علیہ السّلام کو اپنا خلیفہ اور جانشین مقررکیا ہے۔ اور پیغمبر اسلام کے بعد حضرت علی ہی مسلمانوں کے سرپرست اور پیغمبر اسلام کے جانشین ہیں۔
رسول اکرم (ص) کی رحلت کے بعد پچیس برس تک حضرت علی علیہ السّلام نے خانہ نشینی میں زندگی بسر کی، 35 ھ میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کامنصب حضرت علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا . آپ نے پہلے انکار کیا ، لیکن جب مسلمانوں کااصرار بہت بڑھ گیاتو آپ نے اس شرط سے منظو رکیا کہ میں بالکل قرآن اور سنت پیغمبر اسلام (ص) کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا . مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ آپ کی انصاف پر مبنی خالص مذہبی حکومت کو برداشت نہ کرسکا، آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہوگئے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کےہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ تھا ، آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنا اپنا فرض سمجھا اور جمل اور صفین اور نہروان کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں . جن میں حضرت علی بن ابی طالب علیھما السّلام نے اسی شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر و احد ، خندق و خیبر میں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی. ان لڑائیوں کی وجہ سے آپ کو موقع نہ مل سکا کہ آپ پیغمبر اسلام (ص) کی سیرت کے مطابق معاشرے کی اس طرح اصلاح فرمائیں. پھر بھی آپ نے اس مختصر مدّت میں اسلام کی سادہ زندگی ، مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے آپ شہنشاہ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھتے اور اپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنے کو برا نہیں سمجھتے تھے ، پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے ، غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھاناکھالیتے تھے . جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر مساوی طور پر تقسیم کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نے یہ چاہا کہ کچھ انہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مل جائے مگر آپ نے انکار کردیا اور کہا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو خیر یہ بھی ہوسکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے. مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں ، انتہا ہے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ہوئے اور کوئی ملاقات کے لیے آکر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بھجادیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہ ہونا چاہیے . آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد حق داروں تک پہنچ جائے. آپ اسلامی خزانے میں مال کاجمع رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے.
شہادت:
افسوس ہے کہ یہ امن، مساوات اور اسلامی تمدّن کے عظیم علمبردار دنیا طلب لوگوں کی عداوت سے نہ محفوظ نہ رہ سکےاور 19ماہ رمضان 40 ھ کو صبح کے وقت مسجد میں نماز کی حالت میں شقی ترین شخص نے زہر میں آلودہ تلوار کا وار آپ کے سر پر کر کے زخمی کردیا. آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کی انتہا یہ تھی کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آگیا اور اپنے دونوں فرزندوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا. اگر میں اچھا ہوگیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا ، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں ، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے، دو روز تک حضرت علی علیہ السّلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت واقع ہوئی .امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام نے تجہیزو تکفین کی اور نجف کی سرزمین میں انسانیت کے تاجدار کو ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کردیا۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰