رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ میں اعلی سطح کے استاد اور قرآن کریم کے مفسر حجت الاسلام والمسلمین انصاریان نے اپنی ایک تقریر میں بیان کیا : امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : اپنے والد بزرگوار کے پاس تھا کہ ابو حنیفہ چھٹے امام کی خدمت میں آئے تو حضرت نے ان سے ایک سوال کیا تو انہوں نے اس کے جواب میں خاموشی اختیار کی ۔
انہوں نے وضاحت کی : ابو حنیفہ مکتب خلفاء اور مدرسہ سقیفہ کے پہلے فقہی امام ہیں اور اپنے اعتبار سے ایک پڑھے لکھے شخص تھے ، لیکن بہت ہی دلچسپ یہ ہے کہ کئی بار امام صادق علیہ السلام مختلف مجمع کی موجودگی میں ابو حنیفہ سے کئی سوال کرتے ہیں اور وہ کسی بھی سوال کا جواب نہیں دے پاتے ہیں ، شاید امام کا اس طرح سے سوال کرنے کا مقصد یہ تھا کہ پوچھے گئے ان کے سوالات کا جواب نہ دینے کی صلاحیت لوگوں تک پہوچانی ہو اور لوگ ہوشیار ہو جائیں اور جان لیں کہ الہی حقائق صرف کن لوگوں سے حاصل کی جانی چاہیئے ۔
حجت الاسلام والمسلمین انصاریان نے اپنی گفت و گو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : یہی کہ انسان ایک امر کے سلسلہ میں جاہل ہو تو واضح ہے کہ وہ امام و قائد نہیں ہو سکتا بلکہ عوام میں سے ہے ۔ قرآن کریم فرماتا ہے : اپنے سوالات و ضروریات کو اہل ذکر سے پوچھیں ۔
حوزہ علمیہ کے استاد نے اس بیان کے ساتھ کہ ناقل امام نہیں ہوتا ہے بلکہ ماموم ہے بیان کیا : ناقل امام و قائد کے عنوان سے لوگوں کو اپنی طرف دعوت نہیں دے سکتا اور لوگوں سے اپنی پیروی کرنے کو کہے ۔ آئمہ اطہار (ع) نے بھی اس کی ممانعت کی ہے کہ شیعہ کسی کو معصوم اماموں (ع) کے ساتھ ساتھ کسی کو امام کے عنوان سے معرفی کرے ، دوسری طرف حدیث کے راویوں کی تربیت کے ذریعہ اپنی پیروی کے سلسلہ میں فرمایا : امام معصوم کی غیبت میں صرف کسی کی پیری کرو جو ہمارے لئے قابل اعتماد ہیں اور اس سے اپنے سوال و مسائل دریافت کرو ۔
قرآن کریم کے مفسر نے اس تاکید کے ساتھ کہ امام معصوم خداوند عالم کی طرف سے انتخاب ہوئے ہیں اور پیغمبراکرم (ص) کے ذریعہ معرفی ہوئے ہیں جو واجب الاطاعت ہیں بیان کیا : امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : امام اطمینان و آرام کا ٹھکانا ہیں اور پریشانی و اضطراب وہاں نہیں پائی جاتی ؛ اس وجہ سے اگر کوئی امام کے سوال کے سامنے پریشان و مشکلات میں گرفتار ہو جائے تو اسے امامت کے مقام سے الگ ہو جانا چاہیئے اور کہے کہ میں امام کا ناقل ہوں ۔/۹۸۹/ف۹۷۳/