تحریر: محمد جوان اخوان
مسئلہ فلسطین اور قدس شریف کو اسلامی دنیا کا ہاٹ ایشو اور اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین ایشو قرار دیا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی حالات اور تبدیلیوں کا جائزہ لینے سے واضح طور پر حکومتوں کے تعلقات اور عالمی نظام پر اس مسئلے کے براہ راست اثر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اب تک مسئلہ فلسطین اور قدس شریف کے بارے میں فعال اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے اور اس کا موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای ولی امر مسلمین ہونے کے ناطے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے اسٹریٹجک کردار ادا کر رہے ہیں اور انہوں نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد میں امت مسلمہ کی قیادت سنبھال رکھی ہے۔ اسلامی نظام کی بنیادی پالیسیاں بھی اسی تناظر میں طے کی جاتی ہیں۔ لہذا امام خامنہ ای کے بیانات سے قدس شریف کی آزادی اور مظلوم فلسطینی قوم کی نجات کیلئے اپنائی گئی بنیادی اسٹریٹیجیز کو سمجھا جا سکتا ہے۔
آخری مقصد، اسرائیل کی نابودی
اسلامی انقلاب کے بنیادی اہداف کے تعین کے دائرے میں قدس شریف کی آزادی اور مسئلہ فلسطین کے حل کا حتمی راستہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی نابودی ہے۔ یہ وہ مقصد تھا جو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فوراً بعد امام امت حضرت امام خمینی رح کی جانب سے اعلان کیا گیا اور ان کی وفات کے بعد قائد انقلاب اسلامی ایران امام خامنہ ای نے بھی ہمیشہ اس پر تاکید کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
"مسئلہ فلسطین میں ہمارا مقصد فلسطین کی نجات ہے؛ یعنی اسرائیلی حکومت کا خاتمہ۔ 1967ء سے پہلے اور بعد والی سرزمینوں میں کوئی فرق نہیں۔ سرزمین فلسطین کا ہر انچ مسلمانوں کے گھر کا انچ ہے۔ فلسطین پر فلسطینی عوام اور مسلمانوں کی حاکمیت کے علاوہ ہر حاکمیت غاصبانہ ہے۔ ہمارا موقف وہی ہے جو امام خمینی رح نے فرمایا تھا: اسرائیل کا خاتمہ ضروری ہے۔ فلسطین کے یہودی اگر اسلامی حکومت کو قبول کرتے ہیں تو وہیں زندگی بسر کریں۔ مسئلہ یہودیوں سے دشمنی نہیں بلکہ مسلمانوں کے گھر پر غاصبانہ قبضے کا مسئلہ ہے۔" (4 دسمبر 1930ء)
مذکورہ بالا ہدف اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیادی اسٹریٹجیز کا دائرہ کار واضح کرتا ہے۔ البتہ یہ حقیقت سے دور مسئلہ نہیں بلکہ عملی طور پر قابل حصول ہے۔ امام خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں:
"مسئلہ فلسطین کے بارے میں ہمارا موقف واضح ہے۔ ہم مسئلہ فلسطین کا حل اسرائیل کی نابودی میں دیکھتے ہیں۔ کوئی نہ کہے نہیں ہو سکتا؛ دنیا میں نہیں ہو سکتا بے معنی ہے۔ ہر چیز ممکن ہے۔ انسانوں کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہونے والے تمام عظیم پہاڑ راستے سے ہٹائے جا سکتے ہیں۔ چالیس برس گزر چکے ہیں۔ اگر چالیس برس مزید بھی گزر جائیں تو آخرکار اسرائیلی حکومت نابود ہونے والی ہے اور اسے نابود ہونا چاہئے۔ کچھ عرصہ پہلے تک کوئی یہ تصور نہیں کر رہا تھا کہ مشرقی سپر پاور اس طرح زوال پذیر ہو جائے گی۔" (19 اگست 1991ء)
فلسطین کی نجات کیلئے مطلوبہ اسٹریٹجیز
جیسا کہ بیان ہوا غاصب صیہونی رژیم کی مکمل نابودی تک جدوجہد اسلامی انقلاب کی بنیادی پالیسیوں کا حصہ ہے۔ لیکن اس جدوجہد کو پوری امت مسلمہ میں عزم راسخ کی موجودگی کی ضرورت ہے۔ لہذا قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ جدوجہد اور مزاحمت پوری اسلامی دنیا اور تمام مستضعفین میں عام ہو جائے۔ امام خامنہ ای اسرائیل کی ناجائز ریاست کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کو دو حصوں میں بیان کرتے ہیں:
"الف)۔ غاصب صیہونی رژیم کو مقبوضہ فلسطین کی حدود میں قید کر کے اس کی سیاسی اور اقتصادی سرگرمیوں کو محدود کر دینا اور اردگرد سے اس کا رابطہ منقطع کر دینا،
ب)۔ حتمی کامیابی کے حصول تک فلسطینی قوم کی اپنی سرزمین پر جدوجہد اور مزاحمت کو جاری رکھنا اور ان کی تمام ضروریات پوری کرتے ہوئے امداد فراہم کرنا۔" (24 اپریل 2001ء)
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں قدس شریف کی آزادی کیلئے مطلوبہ اسٹریٹجیز درج ذیل ہیں:
1)۔ اسلامی مزاحمت کی حمایت
مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے سب سے پہلا کام جو انجام دیا جا سکتا ہے وہ غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی مزاحمت کا ساتھ دینا ہے۔ یہ حمایت مختلف قسم کے مادی اور معنوی پہلووں سے انجام پا سکتی ہے۔ گذشتہ 35 برس کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی بھی اسی بنیادی نکتے کے گرد گھومتی رہی ہے۔ اس بارے میں ولی امر مسلمین امام خامنہ ای فرماتے ہیں:
"عوام میں اس استقامت اور اس جذبے کو جتنا مضبوط بنا سکتے ہیں بنائیں۔ یہ مزاحمت اور جدوجہد عوام میں جذبہ برقرار رہنے، عوام کی امیدیں قائم رہنے اور ان کا میدان میں حاضر رہنے پر منحصر ہے۔ میری نظر میں یہ وہ سب سے بڑا کام ہے جو فلسطینی گروہوں، فلسطینی تنظیموں اور فلسطینی مجاہدین کو انجام دینا چاہئے۔" (30 اکتوبر 2009ء)
امام خامنہ ای اس بارے میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
"یہ حمایت وسیع اور جامع ہونی چاہئے۔ سیاسی حمایت بھی ہو، پراپیگنڈہ حمایت بھی ہو، اخلاقی حمایت بھی ہو اور فوجی حمایت بھی ہو۔ ہر قسم کی حمایت ضروری ہے۔ جس حد تک ممکن ہو وہ لازمی ہے اور فرض ہے۔ دنیا کے مسلمان دیکھیں ان میں کس قسم کی حمایت کر سکتے ہیں؟ جو بھی ان کی نظر میں ممکن ہو وہی ان کا شرعی وظیفہ بنتا ہے اور اس کی خلاف ورزی جائز نہیں۔" (4 دسمبر 1990ء)
اس بنیاد پر اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت غاصب صیہونی رژیم کی حامی قوتوں کی جانب سے کسی قسم کے دباو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فلسطین میں سرگرم اسلامی مزاحمتی گروہوں اور تنظیموں کی اعلانیہ حمایت میں مصروف ہے۔ اس بارے میں امام خامنہ ای فرماتے ہیں:
"ہم جہاں کہیں بھی مداخلت کرتے ہیں اعلانیہ طور پر اسے بیان کرتے ہیں۔ ہم نے اسرائیل کے خلاف مداخلت کی ہے جس کا نتیجہ 33 روزہ جنگ میں (حماس کی) کامیابی اور 22 روزہ جنگ میں (حزب اللہ لبنان کی) کامیابی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ آئندہ بھی جو قوم اور جو گروہ غاصب صیہونی رژیم کا مقابلہ کرے گا ہم اس کی مدد اور پشت پناہی کریں گے اور اس کا اعلان کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ یہ حقیقت ہے۔" (3 فروری 2012ء)
البتہ اسلامی مزاحمتی گروہوں کی حمایت صرف حکومت کی حد تک محدود نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو عوامی سطح پر بھی اس ضمن میں اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے۔ امام خامنہ ای فرماتے ہیں:
"تمام اقوام اس مسئلے (مسئلہ فلسطین) پر اثرانداز ہو سکتی ہیں اور اس میں حصہ لے سکتی ہیں۔ تمام مسلمان اقوام مدد کر سکتی ہیں۔ فلسطینیوں کی مالی مدد صرف حکومتوں سے مختص نہیں۔ آج فلسطینی قوم کھانے پینے کی اشیاء کی ضرورت مند ہے، دوائیوں کی ضرورت مند ہے۔ فلسطینی قوم فقیر نہیں، سرور ہے لیکن دشمن کے قبضے تلے دبی ہوئی ہے۔ سب پر فرض ہے کہ اس کی مدد کریں۔ فرض کریں اگر پوری اسلامی دنیا (ہمارے ملک کی عوام اور دیگر ممالک کی عوام) سے ہر شخص صرف ایک ہزار تومن فلسطینی عوام کی مدد کرے تو کیا ہو گا؟ اربوں تومن جمع ہو جائیں گے اور فلسطینی عوام اور ان کی زندگی کو بہتر بنائیں گے۔" (5 اپریل 2002ء)
ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے قدس شریف کی آزادی کیلئے فلسطینی مزاحمتی گروہوں اور مجاہدین کیلئے بھی کچھ نصیحتیں بیان فرمائی ہیں۔ آپ اس بارے میں فرماتے ہیں:
"فلسطین کی رہائی اقوام متحدہ یا خطے پر مسلط عالمی طاقتوں یا سب سے بدتر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم سے بھیک مانگنے کے ذریعے حاصل نہیں ہو گی۔ نجات کا واحد راستہ مزاحمت اور مسلح جدوجہد ہے۔ فلسطینیوں کے آپس میں اتحاد یعنی توحید کلمہ کے ذریعے اور کلمہ توحید کے ذریعے جو جہادی سرگرمیوں کا نامحدود ذریعہ ہے۔ اس مزاحمت کے بنیادی رکن ایک طرف تو فلسطینی جہادی تنظیمیں اور فلسطین اور دنیا بھر میں موجود مومن فلسطینی عوام جبکہ دوسری طرف مسلمان اقوام اور حکومتیں خاص طور پر مذہبی علماء، مفکرین، سیاسی شخصیات اور یونیورسٹی طلبہ و طالبات ہیں۔ اگر یہ دو رکن مضبوط ہو جائیں اور صحیح جگہ قرار پا جائیں تو بے شک بیدار ضمیر افراد جو عالمی استکبار اور صیہونزم کے زہریلے پراپیگنڈے کا شکار نہیں ہوئے، دنیا کے ہر کونے میں مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت اور ان کے حقوق کے دفاع کیلئے اٹھ کھڑے ہوں گے اور استکباری نظام کے مقابلے میں سوچ، جذبات اور عمل کا طوفان برپا کر دیں گے۔" (4 مارچ 2009ء)
2)۔ غاصب صیہونی رژیم اور اس کے مغربی حامیوں پر دباو بڑھانا
آج امت مسلمہ کے پاس دنیا کے اسٹریٹجک ترین قدرتی ذخائر موجود ہیں اور اسٹریٹجک ترین راستے اسلامی سرزمینوں سے عبور کرتے ہیں۔ عالم اسلام ان اسٹریٹجک ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے دشمن طاقتوں سے مظلوم فلسطینی قوم کے حقوق واپس لوٹا سکتا ہے۔ امام خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں:
"ان اہم اقدامات میں سے ایک جو عرب حکومتیں انجام دے سکتی ہیں وہ یہ ہے کہ خام تیل برآمد کرنے والے ممالک تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ شور شرابہ جو مغربی ممالک نے شروع کر رکھا ہے کہ تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کریں، صحیح بات نہیں۔ یہ تیل عوام کی ملکیت ہے اور وہ اسے اپنے فائدے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ امریکی حکام گندم اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر چکے ہیں۔ پس کیا وجہ ہے کہ اسلامی اور عرب ممالک اس حق سے برخوردار نہیں؟ اسلامی ممالک ایک مہینہ، صرف ایک مہینہ علامتی طور پر اسرائیل سے دوستانہ تعلقات رکھنے والے تمام ممالک کو تیل برآمد کرنا بند کر دیں۔ آج دنیا والے زندگی کے تین بنیادی ترین اراکین یعنی حرکت (کارخانوں کی حرکت)، روشنی اور انرجی (الیکٹریکل انرجی) اور حرارت میں خام تیل کے محتاج ہیں۔ اگر انہیں ہمارا تیل ملنا بند ہو جائے تو ان کے کارخانے بند ہو جائیں گے اور ان کے شہر تاریکی میں ڈوب جائیں گے اور انہیں حرارت ملنا بند ہو جائے گی۔ ایک مہینہ (نہ ہمیشہ کیلئے) علامتی طور پر فلسطینی قوم کی حمایت میں یہ کام کریں، دنیا ہل کر رہ جائے گی۔" (5 اپریل 2002ء)
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی آزاد اندیش اور مسلمان اقوام ایسے حریب پسندانہ اور انقلابی اقدام کا خیر مقدم کریں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کی حمایت میں مسلمان اقوام اپنی حکومتوں سے کہیں زیادہ آگے ہیں۔ امام خامنہ ای اس بارے میں مزید فرماتے ہیں:
"ایک اور کام جو انجام دے سکتے ہیں یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تمام سیاسی اور اقتصادی تعلقات اور معاہدے ختم کر دیں اور اس سے کوئی تعاون نہ کریں۔ اس سے عرب اقوام بھی خوش ہوں گی۔ عرب اقوام ان حکومتوں کی حمایت کریں گی جو یہ شجاعانہ اقدام انجام دیں گی۔ اس حکومت کا انجام بہت عبرتناک ہو گا جس کی قوم اس حقیقت سے باخبر ہو جائے کہ ان کی حکومت اسرائیل سے انٹیلی جنس اور سکیورٹی تعلقات استوار کئے ہوئے ہے۔ اسلامی حکومتوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔ ان کی ذمہ داری بھی عرب اقوام سے کم نہیں کیونکہ یہ مسئلہ ایک عرب مسئلہ نہیں۔ یہ مسئلہ ان سب سے بالاتر ہے۔ یہ ایک انسانی اور اسلامی مسئلہ ہے۔ اسلامی حکومتیں بھی اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کے مطابق خام تیل یا دیگر ذریعوں سے اقدامات انجام دے سکتی ہیں۔" (5 اپریل 2002ء)
ایک اور اقدام جو کچھ حد تک موثر واقع ہو سکتا ہے وہ غاصب صیہونی رژیم پر بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دباو ڈالنا ہے۔ امام خامنہ ای فرماتے ہیں:
"عالمی ادارے اور اقوام متحدہ میدان میں آئیں۔ یہ انسانی حقوق کے ادارے جو ہمیشہ یا اکثر اوقات استکباری اہداف کے راستا میں سرگرم رہتے ہیں کم از کم ایک بار استکباری قوتوں کی مرضی کے خلاف اقوام عالم کے حق میں کوئی کام انجام دیں، عالمی رائے عامہ کو اپنی جانب متوجہ کریں، ظالم اور جارح کی مذمت کریں اور مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کریں۔ اگر یہ دباو پڑ جائے تو مسئلہ فلسطین حل ہو جائے گا اور ظالم پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اگر عرب حکومتیں، اسلامی حکومتیں، مسلمان اقوام اور عالمی ادارے سب اس راہ میں سرگرم ہو جائیں تو نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔" (5 اپریل 2002ء)
3)۔ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کا حق
اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے پیش کردہ راہ حل کی بنیاد اس بات پر استوار ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ راہ حل تمام بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے اور خود اقوام متحدہ بھی بارہا فلسطینیوں کے اس حق پر زور دے چکی ہے۔ امام خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں:
"تمام فلسطینی، چاہے وہ اس وقت سرزمین فلسطین میں زندگی بسر کر رہے ہوں یا وہاں سے دیگر ممالک ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہوں لیکن انہوں نے اپنا فلسطینی تشخص اب تک باقی رکھا ہوا ہو، چاہے وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی، انہیں عالمی برادری کی عادلانہ نظارت کے تحت ایک جامع ریفرنڈم کے ذریعے اپنا سیاسی نظام خود چننے کا حق حاصل ہے۔ وہ تمام فلسطینی جنہوں نے کئی سال جلاوطنی کی سختیاں اور مشکلات برداشت کی ہیں فلسطین واپس آ کر اس ریفرنڈم میں شریک ہوں اور اس کے بعد ملک کے آئین کی تشکیل اور عام انتخابات میں شرکت کریں۔ اس وقت امن بحال ہو جائے گا۔" (30 اگست 2012ء)
یہ راہ حل آخرکار انسانیت اور مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں ثابت ہو گا۔ امام خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں:
"یہ ایک واضح، منطقی اور عالمی رائے عامہ میں مانے گئے سیاسی اصول پر استوار ہے۔ اس راہ حل کے مطابق فلسطین کے حقیقی مالکین (یعنی وہ افراد جو خود یا ان کے آباء و اجداد 1948ء سے پہلے مقبوضہ فلسطین میں پیدا ہوئے تھے) ایک جامع ریفرنڈم میں شریک ہو کر بین الاقوامی سطح پر رائج طریقے کے مطابق اس سرزمین اور اس میں برسراقتدار آنے والی مستقبل کی حکومت کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے۔ وہ سیاسی نظام اور اس کی بنیاد پر تشکیل پانے والی حکومت غیر فلسطینی مہاجرین کے بارے میں بھی فیصلہ کرے گی جو گذشتہ سالوں کے دوران دنیا کے مختلف حصوں سے مقبوضہ فلسطین آ کر آباد ہوتے رہے ہیں۔" (10 اکتوبر 2011ء)
اگرچہ یہ راہ حل ایسے تمام افراد کیلئے قابل قبول ہے جن کا ضمیر زندہ ہے لیکن واضح ہے کہ غاصب صیہونی اور ان کے مغربی حامی اسے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ ستر برس کے دوران عالمی استکباری طاقتوں کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ وہ مظلوم فلسطینی قوم کی آواز دبا دیں اور اسے دنیا تک پہنچنے نہ دیں۔ واضح ہے کہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کا موقع ملنے پر مظلوم فلسطینی قوم متحد ہو کر فلسطین کی آزادی اور غاصب اسرائیل کی نابودی کا نعرہ لگائے گی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اگر 1948ء کے بعد سے اب تک دنیا کے دیگر حصوں سے آ کر مقبوضہ فلسطین میں بسنے والے غیر قانونی یہودیوں کو بھی اس ریفرنڈم میں شرکت کی اجازت دے دی جائے تب بھی فلسطینیوں کا پلڑا بھاری ہے اور ریفرنڈم کا نتیجہ حتمی طور پر اسرائیل کی نابودی پر منتج ہو گا۔
لہذا گذشتہ تین عشروں کے دوران اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان انجام پانے والے نام نہاد امن مذاکرات میں اسرائیلی حکام جلاوطن فلسطینی مہاجرین کے حق واپسی کا انکار کرتے آئے ہیں اور وہ کسی قیمت پر یہ حق قبول کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک غاصب صیہونی حکمران اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے پر مبنی فلسطینیوں کا حق قبول نہیں کر لیتے ان سے مقابلے کا واحد راستہ اسلامی مزاحمت اور مسلح جدوجہد ہی ہے۔ گذشتہ تیس برس پر مبنی تاریخی تجربے خاص طور پر 33 روزہ، 22 روزہ اور 8 روزہ جنگوں سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ قدس شریف کی آزادی اور فلسطین کی نجات کا واحد راستہ اسلامی مزاحمت اور بھرپور مسلح جدوجہد اور امت مسلمہ کی جانب سے فلسطینی مجاہدین کی بھرپور حمایت اور مدد میں مضمر ہے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰
منبع: اسلام ٹائمز