رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روایات میں حضرت علی علیہ السلام کو جنت میں جانے والوں کا قائد بیان کیا گیا ہے جیسے پیغمبر اکرم (ص) کا ارشاد گرامی ہے قائد الامۃ الی الجنۃ ۔
(۳):قیادت اوررہبری کا فلسفہ
اگر انسان خطبہ شقشقیہ کو غور سے پڑھے تو معلوم ہوتا ہے کہ قیادت اوررہبری کا فلسفہ کیا ہے ۔ کیوں ایک معاشرہ بغیر رہبر کے نہیں رہ سکتا اگرچہ چند ایک حکمرانوں کے علاوہ باقی تمام نے اس فلسفہ کو بھلا کر اس کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قیادت ورہبری کا فلسفہ وہی ہے جو امام علی علیہ السلام نے مدینہ کے لوگوں کے ہجوم کے بعد فرمایا کہ جو تیسرے خلیفہ کے قتل کے بعد جمع ہوا تھا :أماوالّذی فلق الحبۃ ،وبرا النسمۃ ،لولاحضورالحاضر،وقیام الحجۃ بوجود الناصر،ومااخذ اللہ علی العلماء الایقاروا علی کظۃ ظالم ،لاسغب مظلوم ،لالقیت حبلھا علی غاربھا؛آگاہ ہوجاو وہ خدا گواہ ہے جس نے دانہ کو شگافتہ کیاہے اورذی روح کو پیدا کیا ہے کہ اگر حاضرین کی موجودگی اورانصارکے وجود سے حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اوراللہ کا اہل علم سے یہ عہدنہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اورمظلوم کی بھوک پر چین سے نہ بیٹھنا تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکادیتا۔[7]
جی ہاں اگر مارکس جیسے لوگ اس قیادت اوررہبری کے فلسفہ کو جان لیں تو کبھی بھی اس کو سرمایاداروں کا آلہ کار نہ کہتے ،کیونکہ امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں حکومت کو قبول کرنا یعنی ایک سنگین ذمہ داری کو اپنے عہدہ لینا ہے اگروہ ذمہ داری انسان قبول نہ کرے یا نہ کرسکتا ہوتو خود حکومت کی وقعت امام کی نظر میں امام کا اسی خطبے کا اگلاجملہ ہے کہ فرمایا:ولالفیتم دنیاکم ھذہ ازھدعندی من عفطۃ عنز!؛اورتم دیکھ لیتے کہ تمھاری دنیا میری نظر میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے ۔[8]
(۴):حکمرانوں کی اقسام
جیسا کہ اوپر اشارہ کیاجاچکا ہے کہ انسان ایک معاشرتی موجود ہے کہ جو کسی حکومت اوررہبری کے بغیر نہیں رہ سکتا اوراسی پیاس کو بجھانے کی خاطر کبھی اسے اچھے اورنیک رہبر نصیب ہوتے ہیں کہ جو انسانوں کو اخلاقی کمالات کے ساتھ ساتھ دنیوی عروج بھی نصیب کرتے ہیں اوربعض ایسے بھی ہوسکتے ہیں کہ جو انسان کی زندگی میں تاریکیوں کے اضافہ کے سوا کچھ نہیں کرپاتے ۔اوریہ دونوں برابرنہیں ہیں ،خود امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : فانه لا سواء امام الهدی و امام الردی[9] کہ ہدایت اورسیدھا راستہ دکھانے والارہبر اورامام ،اورگمراہ کرنے والا امام ہرگزبرابر نہیں ہوسکتے ۔بعض رہبر اورقائد سخت مشکلات کو بھی برداشت کرکے لوگوں کی دنیا اورآخر ت سنوارتے ہیں ۔حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ولیھم وال فاقام واستقام حتی ضرب الدین بجرانہ [10]
لوگوں کے امور کاذمہ دار ایساحاکم بنا جو خود بھی سیدھے راستہ پر چلا اورلوگوں کو بھی اسی راستہ پر چلایا یہانتکہ دین محکم اورپایدارہوگیا۔
ایک اورخطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں :امام من اتقی وبصیرۃ من اھتدی [11](پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم )متقین کے امام اورطلبگاران ہدایت کے لیے آنکھوں کی بصارت تھے ۔
خود امیرالمومنین علیہ السلام کہ جس نے عدل وانصاف کی جنگ لڑی اورپورے دردمندانہ طریقے سے حکومت کی باگ ڈور صرف اس لیے سنبھالی تاکہ مظلوم کو اس کا حق واپس دلایا جاسکے ، ایسے رہبر کی مظلومیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جو معاشرے میں حق وانصاف کی بنیادوں کو مستحکم کرنے اور مظلوموں کی مدد کرنے میں اپنا سب کچھ قربان کردے ۔جس کی سیرت اس کے قول کی بڑھ کر تصدیق کرے لیکن لوگ اس کے وجود کی نعمت سے غفلت کریں یقینا بدبختی ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اس عظیم نعمت کا کفران کیا اوربالآخر حجاج بن یوسف ثقفی جیسے ظالم حکمران کا دوردیکھا ۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے حکومتی ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اللهم اِنّك تعلم اَنّه لم يكن الذى كان مِنّا منافسةً في سلطان و لَاالتِماس شى ءٍ من فضول الحُطام و لكن لنَرُدَّ المَعالم مِن دينك و نُظهِر الاِصلاح في بلادك، فيأمن المظلومون مِنْ عبادك و تقامُ المعطَّلةُ مِن حدودك۔[12]۔
خدایا!توجانتا ہے کہ قیام اورحکومت سے ہمارامقصد ، قدرت کا عشق اورمال ودولت کا حصول نہیں ہے بلکہ ہدف صرف یہ ہے کہ تمہارے دین کو اس جگہ پر کہ جہاں تھا لوٹاسکیں اورتیرے شہروں میں اصلاح کرسکیں تاکہ تیرے مظلوم بندے امان میں رہیں اورتیری جن حدود کر ترک کردیا گیا ہے ان کو قائم کرسکیں ۔
اوردوسری طرف فاسد حکمران بھی ہیں جو صرف دنیا پرستی کے اسیر ہیں جنہوں نے حکمرانی کو ہدف قراردیتے ہوئے اس تک پہنچنے میں سب جائز وناجائز کو انجام دیا ۔
وہ تمام کام جن کی دین اسلام کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار بھی اجازت نہیں دیتیں ان کوبھی کرگزرنے میں ذرا برابرہچکاہٹ محسوس نہ کی اورزندگی کے چارروز اسی غفلت میں گزاردیئے ۔جنہوں نے نہ صرف لوگوں پر ظلم کیا بلکہ اپنے اوپر بھی ظلم وستم کیا امیرالمومنین ایسے ظالم اورجابر حاکم کے بارے میں رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے ، ارشاد فرماتے ہیں :یؤتی یوم القیامۃ بالامام الجائر ولیس معہ نصیر ولاعاذرفیلقی فی نار جھنم فیدورفیھا کما تدورالرحی ثم یرتبط فی قعرھا ۔[13] قیامت کے دن ظالم رہبر کا پیش کیا جائے گا جس کا اس دن کوئی مددگارنہیں ہوگا اورنہ ہی عذرخواہی قبول کرنے والا، اس کو جھنم کے شعلوں میں جھونک دیا جائے گا اوروہاں چکی کی طرح چکر کھائے گا اوراس کے بعد اس کو قعرجھنم میں جکڑدیا جائے گا ۔
حضرت علی علیہ السلام کا اصلی درد اورغم یہ تھا کہ افسوس ہے کہ لوگ نیک اورصالح رہبری اورقیادت کو نہ صرف قبول نہ کریں بلکہ اس کو کمزوربنانے کے لیے کمرباندھ لیں جس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ فاسق اورفاجر حکمران مسلط ہوجائیں گے ۔امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں ۔ولکننی آسی ان یلی امرھذہ الامۃ سفھاؤھاوفجارھا فیتخذوا مال اللہ دولاوعبادہ خولا و الصالحین حربا والفاسقین حزبا [14]مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ امت کی زمام احمقوں اورفاسقوں کے ہاتھ چلی جائے وہ مال خدا کو اپنی املاک اوربندگان خدا کو اپنے غلام بنا لیں ،نیک لوگوں سے جنگ کریں اورفاسق لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرلیں ۔
شاید یہاں پر یہ سوال پیدا ہو کہ حقیقتا صالح اورنیک رہبری تو امام معصوم انجام دے سکتا ہے کہ جس کی حکمرانی اوررہبری میں عدل وانصاف قائم ہوسکتا ہے ایک عام انسان کیسے ایسی حکومت قائم کرسکتا ہے ؟جواب بہت سادہ ہے ہر حکمران جو عدل وانصاف کو قائم کرنے کے لیے اپنی قدرت کو وسیلہ بنائے وہ ایساکرسکتاہے جس کے دل میں لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ ہو۔
یقینا شریر اورمفسد لوگ اس کی حکومت میں ختم نہیں ہوسکتے لیکن ان کے خاتمے کے لیے اورعدل وانصاف کو قائم کرنے کے لیے کوشش توکرسکتاہے اوروہ صفات جو ایک رہبر میں ہونی چاہییں اگران کو اپنا لے تو اس کی شہرت بھی ایک عادل بادشاہ کے طورپر ہوسکتی ہے مسلمان تو دور کی بات آغاز اسلام میں نجاشی بادشاہ کے لیے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم)کی زبانی یہ الفاظ کہ تم(مسلمانوا) حبشہ چلے جاو وہاں کا حاکم عادل اورمہربان ہے نجاشی مسلمان نہیں تھا لیکن انسانی اصولوں کا پابند تھا ۔
حواله جات:
7نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان جوادی ،خطبہ ،۳،ص۴۳[7]
8ایضا[8]
9نھج البلاغہ ،نامہ ۲۷[9]
10نھج البلاغہ ،کلمات قصار۴۶۷[10]
11ایضا،خطبہ ،۱۱۶[11]
12 نهج البلاغه، ترجمہ فيض الاسلام، خ۱۳۱، ص۴۰۶ ـ ۴۰۷[12]
13نھج البلاغہ ،خطبہ ۱۶۴[13]
14ایضا، نامہ ۶۲[14]
/۹۸۹/ف۹۵۵/