رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روایات میں حضرت علی علیہ السلام کو جنت میں جانے والوں کا قائد بیان کیا گیا ہے جیسے پیغمبر اکرم (ص) کا ارشاد گرامی ہے قائد الامۃ الی الجنۃ ۔
باب دوم : ایک رہبر اورحکمران کی صفات
یقینا ایک رہبر اورحکمران جو لوگوں کو دنیا اورآخرت کی سعادت دینا چاہتا ہے ان کی مشکلات کو دورکرنا چاہتاہے اس میں چند ایک ایسی صفات ہونی چاہییں جو اس کے عمل کی تصدیق کریں اورلوگوں کااعتماد اس پرباقی رہے ہم یہاں امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں ان صفات کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک وہ جو خود حاکم کی شخصی صفات ہیں اوردوسری وہ جو اس کے اوراسکی رعیت کے باہمی ارتباط کو بیان کرتی ہیں ۔
الف:ذاتی صفات :
(۱):تذکیہ نفس
تذکیہ نفس کی افادیت کاکوئی منکر نہیں ہے کیونکہ جس موضوع کو خداوندنے گیارہ قسمیں کھانے کے بعد ذکر کیا ہو قدافلح من زکّٰھا وقدخاب من دسّٰھا؛[1] کہ سعادت اورکامیابی صرف اس کا مقدر بنے گی جو تذکیہ نفس کے زیور سے آراستہ ہوگا اس کی اہمیت میں ذرہ برابرشک کی گنجائش نہیں رہتی۔تذکیہ نفس ہر انسان کے لیے ضروری ہے لیکن ایک رہبر اورراہنما کے لیے اس کی ضرورت اوراہمیت دوسروں کی نسبت بڑھ جاتی ہے کیونکہ انسان کی زندگی نشیب وفرازکا نام ہے اورتذکیہ نفس انسان کو اس سعادت اورشقاوت کے نشیب وفراز سے ڈھکی وادی سے نکال کر سعادت کے ساحل پر لاکھڑا کرتا ہے کیونکہ انسان کا نفس ایک سرکش گھوڑے کی مانند ہے اگر تذکیہ نفس کے تازیانوں سے رام نہ کیا جائے تو انسان کے دامن میں بدبختی اورتباہی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا خصوصا ایک رہبر اورراہنما کے لیے کہ جس کے کاندھے پر اپنے بوجھ کے ساتھ عوامی قافلے کی مہار بھی موجود ہے اسی لیے مولائے کائنات امیرالمومنین علیہ السلام مالک اشتر کو لکھے گئے خط میں ارشاد فرماتےہیں کہ :فلیکن احب الذخائر الیک ذخیرۃ العمل الصالح ،فاملک ھواک ،وشح ّ بنفسک عما لایحل لک [2] ؛ تمھارا محبوب ترین ذخیرہ عمل صالح کو ہانا چاہیے ،خواہشات کوروک کررکھو اورچیز حلال نہ ہو اس کے لیے نفس کو صرف کرنے سے بخل کرو ۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس بیان میں تذکیہ نفس پر بہت زور دیا ہے اوراس پر اصرارفرمایا ہے کیونکہ معاشرتی زندگی کی سعادت میں قانون نافذ کرنے والوں کی لیاقت اوراہلیت خود قانون کی نسبت زیادہ موثر اوراثرانداز ہوتی ہے ۔
امام علی علیہ السلام محمد بن ابی بکر کو مخاطب کرتے ہوئے ان لوگوں کے امتیازات کی طرف اشارہ فرماتےہیں جنہوں نے اپنے روحوں کو تذکیہ نفس اورتقوی کے زیورسے آراستہ کیا ۔امام فرماتے ہیں :واعلموا عباداللہ ان المتقین ذھبوا بعاجل الدنیا وآجل الآخرۃ فشارکوا اھل الدنیا فی دنیاھم ،ولم یشارکوا اھل الدنیا فی آخرتھم ؛سکنوا الدنیا بافضل ماسکنت ۔۔۔بندگان خدا !یارکھو کہ پرہیزگار لوگ دنیا اورآخرت کے فوائد لے کر آگے بڑھ گئے وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہوسکے ؛وہ دنیا میں بھی بہترین زندگی گزارتےرہے ۔۔۔۔[3]
حضرت علی علیہ السلام مالک کو واجبات کی ادائیگی اور ان پرتوجہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :امرہ بتقوی اللہ ،وایثارطاعتہ ،واتباع ما امر۔۔۔۔۔۔لایسعد احدالاباتباعھا ولایشقی الامع جحودھا واضاعتھا ؛سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو، اس کی اطاعت کرو اورجن فرائض وسنن کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کی اتباع کے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا اورکوئی ان کے انکار اورضائع کرنے کے بغیر شقی اوربدبخت نہیں ہوسکتا۔[4]
حضرت علی علیہ السلام واجبات کی ادائیگی کو خاص اہمیت دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ : ولیکن فی خاصۃ ما تخلص بہ للہ دینک اقامۃ فرائضہ التی ھی لہ خاصۃ ؛اورتمھارے وہ اعمال جنھیں صرف اللہ کے لیے انجام دیتے ہوان میں سے سب سے اہم کام فرائض کی انجام دہی ہے خالصا خدا کےلیے ۔[5]
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام اپنی فوج کے کمانڈر شریع بن ھانی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :اتق اللہ فی کل صباح ومساء ۔۔۔۔۔۔سمت بک الاھواء الی کثیر من الضرر فکن لنفسک مائعا رادعا ؛صبح وشام اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنے نفس کو اس دھوکہ باز دنیا سے بچائے رہو اوراس پر کسی حال میں اعتبار نہ کرنا اوریہ یاد رکھنا کہ اگر تم نے کسی ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کو بہت سی پسندیدہ چیزوں سے نہ روکا،تو خواہشات تم کو بہت سے نقصان دہ امور تک پہنچا دیں گی لہذا ہمیشہ اپنے نفس کو روکتے ٹوکتے رہو ۔ [6]
۲:علم وبصیرت
ایک رہبر اورراہنما کے لیے علم وبصیرت شرط ہے اوراسلامی تعلیمات میں اس کو ایک اصل کے طورپرقبول کیاگیا ہے اورمختلف مقامات پر اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ حکومتی امور ان اشخاص کے ذمہ لگائے جائیں جو ان کی اہلیت اورقابلیت رکھتے ہوں،اصول کافی میں مرحوم کلینی ،شیخ صدوق اورشیخ طوسی نے عمربن حنظلہ کے ذریعے امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ جس میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مَنْ کانَ مِنکُمْ مِمَّنْ قَدْ رَوَی حَدیثَنا ونَظَرَ فی حَلالِنا وَحَرامِنا وعَرَفَ اَحْکامَنا فَلْیَرْضَوا بِهِ حَکَماً فَاِنّی قد جَعَلتُهُ عَلَیْکُم حاکماً۔۔[7] امام فرماتے ہیں کہ جو شخص تم میں سے ہماری حدیث کو بیان کرتا ہو اورہمارے حلال وحرام میں صاحب نظر اورتوجہ کرتا ہو اورہمارے احکام کو جانتا ہوتو اس کو اپنا حاکم قراردینا کہ تحقیق میں نے اسے تم پرحاکم قراردیا ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام ایک رہبر کےلیے علم اورآگاہی کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں :ثم انظر فی امورعمالک فاستعملھم اختبارا ولاتولھم محاباۃ واثرۃ فانھما جماع من شعب الجور والخیانۃ وتوخ منھم اھل التجربۃ والحیاء ؛اس کے بعد اپنے عاملوں کے معاملات پر بھی نگاہ رکھنا اورانہیں امتحان کے بعد کام سپرد کرنا اورخبردار تعلقات یا جانبداری کی بنا پر عہدہ نہ دے دینا کہ یہ باتیں ظلم اورخیانت کے اثرات میں شامل ہیں اوردیکھو کہ جو تجربہ کار اورحیاء والے ہوں ان کو اختیار کرنا ۔۔[8]
کیونکہ ملکی سرمایہ کو اصراف سے بچانے کا ایک راستہ یہی ہے کہ حکومتی عہدے انہیں کے سپردکیے جائیں جو اس کا عالم اورماہر ہو ورنہ انجان وزیر حد سے زیادہ امکانات کو استعمال کرے گا اوراس کا نتیجہ بھی کیفیت اورکمیت کے لحاظ سے بہت ضعیف ہوگا ایک وزیر صنعت وتجارت اوردوسرے شعبوں میں اپنے قیمتی تجربات کے ذریعے بہت سی ملکی مشکلات کو حل کرسکتا ہے اورضروری ہے کہ کسی کو ایک عہدے کےلیے منتخب کرنے سے پہلے اس کے سابقہ کار کو مدنظررکھتے ہوئے اس کا امتحان کیاجائے کہ وہ کتنا تجربہ رکھتا ہے حضرت علی علیہ السلام بھی اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :والقدم فی الاسلام المتقدمۃ ،فنھم اکرم اخلاقا واصح اعراضا ؛ (اے مال عہدہ ان کو دینا )جن کہ پہلے اسلام کےمورد میں خدمات ہوں کہ ایسے لوگ خوش اخلاق اوربے داغ عزت والے ہوتے ہیں ۔ان کے اندر فضول خرچی کی لالچ کم ہوتی ہے ۔[9]
(۳):سادگی کے ساتھ زندگی بسر کرنا
رہبری اورحکمرانی کے عہدے کو قبول کرنے سے ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے جوانسان کو ابھارتی ہیں کہ نچلے طبقہ کی طرح زندگی گزارے تاکہ ان کے درد کو سمجھ سکے اورپھران کی مشکلات کو دورکرنے کی کوشش کرسکے ۔
حضرت علی علیہ السلام اس مقام پر اپنے عمل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :وان امامکم قد اکتفی من دنیاہ بطمریہ ،ومن طعمہ بقرصیہ ۔الاوانکم لاتقدرون علی ذلک ،ولکن اعینونی بورع واجتہاد؛یاد رکھ کہ تیرے امام نے اس دنیا سے دو پرانے کپڑے اوردوروٹیوں پر راضی رہا ہے خدا کی قسم تم اس پر قدرت نہیں رکھتے لیکن پرہیز گاری اورکوشش کے ذریعے میری مددکرو۔[10]
نھج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۲۰۹میں امام علی علیہ السلام عاصم بن زیاد جو رہبانیت اختیار کرچکا تھا امام علیہ السلام نے اس کو نصیحت کی تو وہ حیران ہوگیا کہ امام علی علیہ السلام جیسا زاھد مجھے رہبانیت سے روک رہا ہے تو امام علی علیہ السلام نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ جس سے قیادت اورحکمرانی کا فلسفہ روز روش کی طرف آشکار ہے امام نے فرمایا:ان اللہ تعالی فرض علی آئمۃ العدل ان یقدروا انفسھم بضعۃ الناس کیلایتبیع بالفقیر فقرہ !پروردگار نے آئمہ حق پر فرض کردیا ہے کہ اپنی زندگی کا پیمانہ کمزورترین انسانوں کو قراردیں تاکہ فقیر اپنے فقرکی بنا پر کسی پیچ وتاب کا شکار نہ ہو۔[11]
(۴):ذہانت اورسیاسی بصیرت
رہبرکی صفات میں سے ایک جو اپنی جگہ پر حائزاہمیت ہے رہبر کی ذہانت اورسیاسی بصیرت ہے جس کی وجہ سے رہبر حسن تدبیر کے بغیر کاموں کو انجام نہیں دیے گا اوراہداف تک پہنچنے کےلیے چارہ جوئی کرےگا اورکاموں کو درست سمت میں چلائے گا حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی حسن تدبیر سے مصرکے حاکم سے کہا کہ جو سات سال خوشحالی کے ہیں ان میں کھانے کی اشیاء کو بچایا جائے ان سات سالوں کے لیے جو آئندہ آئیں گے اورحضرت علی علیہ السلام کے کلام میں بھی ایسی چیز ملتی ہے کہ ایک حاکم ان صفات سے آراستہ ہونا چاہیے غررالحکم میں حسن تدبیر کو حکمرانی کے قوام سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : من حسنت سياسته دامت رياسته ۔[12]
اسی طرح اگر حسن تدبیر نہ ہوتو اس کا لازمہ حکومت اورحکمرانی کا نابود ہونا ہے : سوء التدبير سبب التدمير[13]اسی طرح جب مصر کی حکومت کے لیے مالک اشتر کا انتخاب کیا تومختلف وزراء کو انتخاب کرنے کے بارے میں فرمایا: و اجعل لراس کل امر من امورک راسا منهم لا يقهره کبيرها و لا يتشتت عليه کثيرها ؛اپنے ہرحکومتی کاموں کے لیے وزراء کو انتخا ب کرنا کہ جن میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں ایک یہ کہ کام کا زیادہ ہونا اسے مغلوب اور ناتوان نہ کردے اوردوسرایہ کہ کام کا زیادہ ہونا اس کو غمگین نہ کردے ۔[14]
یقینا حسن تدبیر رکھنے والاحکمران کبھی پریشان نہیں ہوگا اورہر کام کو احسن طریقے سے انجام دے گا ۔ اس شرط کی اہمیت عصرحاضر میں زیادہ روشن ہوجاتی ہے جہاں داخلی اورخارجی دشمنوں اوریجنسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورحسن تدبیر سے آراستہ حاکم کبھی مغلوب نہیں ہوگا اور بہت سی مشکلات کا مقابلے کے وقت اپنے حواس اورنفس پر مسلط رہے گا ۔
(۵):شجاعت اورپایداری
رہبر کی صفات میں سے جس کی اپنی جگہ پر بہت اہمیت ہے شجاعت اورمستحکم ارادہ ہے ۔حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو نصیحت فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے حکومتی ڈھانچے میں ان لوگوں کو شامل کریں جو شجاع ہوں اوردشمن کا شجاعت اوربہادری کے ساتھ مقابلہ کریں نہ یہ کہ خود ہی بھاگ جائیں یا قدرتمندلوگوں کے ڈر کی وجہ سے ان کے تابع ہوجائیں جو حکومت اورعوام کےنقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔ثم اھل النجدۃ والشجاعۃ پھر وہ جو رحم دل اورقدرتمند ودولتمند لوگوں کے ساتھ ،سختی اوربہادری سے پیش آئیں ۔[15]
اسی طرح اگر حکمران اوررہبر مستحکم ارادہ کا مالک ہوگا تواپنی حکمرانی اورحکومت کے تمام ایام اورخصوصا مشکل دنوں میں اپنی پالیسیوں کو واضح اوربلاروک ٹوک جاری کرسکتا ہے جس کااچھا اثر نہ صرف عوام پر پڑے گا بلکہ اس کے حکومتی ڈھانچہ میں بھی کوئی تزلزل پیدا نہیں ہوگا
علی علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں :لاتجعلوا علمکم جھلا،ویقینکم شکا؛اذاعلمتم فاعملوا،واذا تیقنتم فاقدموا۔
خبرداراپنے علم کو جہل نہ بناواوراپنے یقین کو شک قرارنہ دو ،جب جان لو تو عمل کرو اورجب یقین ہوجائے تو قدم آگے بڑھاو۔[16]
(۶):امانتداری
بلاشبہ امانت ایسی صفت ہے کہ جس کی اسلامی تعلیمات میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اورجب اسی صفت کا ذکر رہبری اورقیادت اورنہج البلاغہ میں حکمرانو ں کے بارے میں کیا جاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ یہ قیادت اوررہبری ایک قسم کی الہی امانت ہے صحیح طریقے سے رہبری کرنا اوراسلامی قوانین کا جاری کرنا ہی امانت داری ہے ،امام علی علیہ السلام اشعث بن قیس کو مخاطب کرتے ہوئے اسی بات کی طرف اشارہ کرتےہیں کہ :یادرکھ وزارت کا عہدہ تیرے کھانے اورپینے کا وسیلہ نہیں ہے بلکہ ایک امانت ہے جو تیری گردن پر ہے ۔
امانتداری کا دوسرا رخ بیت المال کے حوالے سے ہے کہ حاکم اس میں خیانت نہ کرے اوراس کو صحیح طریقے سے خرچ کرے اس حوالے سے حضرت علی علیہ السلام نے بہت سخت اورمحکم رویہ اپنایا حتی کہ بعض لوگ مخالف بھی ہوگئے ۔حضرت علی علیہ السلام نے ہر اس شخص کو حکومتی ڈھانچے میں شامل کرنے سے انکار کردیا کہ جس کی شہرت خیانت کے حوالے سے رہی ہو اگر کوئی پہلے حاکم تھا اورخائن تھا تو سب سے پہلا کام اس کو عزل کرناتھا جس کی وجہ سے بہت سی مشکلات پیدا ہوگئیں لیکن بیت المال کا تعلق عوام سےہے جس کو قطعا برداشت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مولائے کائنات کی نگاہ میں بدترین خیانت وہ ہے جو لوگوں کے ساتھ ہو ۔امیرالمومنین (علیه السلام)مکتوب نمبر ۲۶میں اپنے بعض وزراء کو خط لکھتے ہوئے یہی چیزبیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :ومن استھان بالامانۃ ورتع فی الخیانۃ [17]۔
جس شخص نے بھی امانت کو معمولی تصور کیا اورخیانت کی چراگاہ میں داخل ہوگیا اوراپنے نفس اوردین کو خیانت کاری سے نہیں بچایااس نے دنیا میں بھی اپنے کو ذلت اوررسوائی کی منزل میں اتاردیا اورآخرت میں تو ذلت ورسوائی اس سے بھی زیادہ ہے اوریادرکھو کہ بدترین خیانت امت کے ساتھ خیانت ہے ۔۔
یہان تکہ امام علی علیہ السلام مالک اشتر کو واضح الفاظ میں فرماتےہیں کہ اگر کوئی امانت میں خیانت کرے اوراس کی خیانت ثابت ہوجائے تو اس سے مال واپس چھیننے کے ساتھ ساتھ جسمانی طورپر بھی سزا دینا اوراس کو معاشرے میں بھی ذلیل وخوار کرنا تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے ۔ فبسطت علیہ العقوبۃ فی بدنہ ،اخذتہ بما اصاب من عملہ ،ثم نصبتہ بمقام المذلۃ ،ووسمتہ بالخیانۃ ،وقلدتہ عارالتھمۃ ۔اوراست جسمانی اعتبار سے بھی سزادینا اورجو مال حاصل کیاہے اسے چھین بھی لینا اورمعاشرے میں ذلت کے مقام پر رکھ کر خیانت کاری کے مجرم کی حیثیت سے پہچنوانااورننگ ورسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا۔[18]
اسی طرح اسی خطبہ میں ایک اورجگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی عہدے کی کرسی حاصل کرنے کےلیے اپنے آپ کو امین اورنیک ظاہر کرتے ہیں خبردار ان کا ظاہری پن تجھے دھوکہ نے بلکہ پہلے ان کا امتحان لینا کہ واقعی وہ امانتدار ہیں ان کا آپ سے پہلے حکمرانوں کے ساتھ سلوک کیسا تھا ۔۔[19]
(۷):صداقت
صداقت کی صفت کی اہمیت رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث سے لگائی جاسکتی ہے کہ آپ (صلی الله علیه و آله وسلم)نے فرمایا:لاتنظروا الی کثرۃ صلاتھم وصومھم وکثرۃ الحج والمعروف،وطنطنھم باللیل ،ولکن انظروا الی صدق الحدیث واداء الامانۃ ۔کہ لوگوں کی زیادہ نمازیں ،ان کے روزے ،ان کے حج اورنیکیاں اوررات کو انکی مناجات کو نہ دیکھو بلکہ ان کی صداقت اورامانت کی طرف نگاہ کرو ۔[20]
امام علی علیہ السلام نے بھی نہ صرف صداقت سے حکومت کرنے کی سفارش کی بلکہ خود صداقت پر مبنی ایک ایسی الھی حکومت قائم کی جس کی مثال نہیں ملتی ۔اور اسی وجہ سے علی علیہ السلام کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا استاد شہید مطہری لکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت میں تیسری مشکل امام کی سیاست میں صداقت اورصراحت کا ہونا تھا کہ حتی بعض اپنے لوگ بھی اس کوپسند نہیں کرتے تھے اورکہتے تھے کہ سیاست میں اتنی صداقت نہیں ہوناچاہیے بلکہ سیاست کی چاشنی تو جھوٹ اوردھوکہ ہے ۔اسی وجہ سے علی علیہ السلام کو اچھاسیاستدان نہیں سمجھتے تھے اسی وجہ سے امیرکائنات (علیه السلام) نے بھی واضح الفاظ میں فرمایا:واللہ مامعاویہ بادھی منی ولکنہ یغدرویفجرولو لا کراھیۃ الغدرلکنت من ادھی الناس ولکن کل غدرۃ فجرۃ وکل فجرۃ کفرۃ ۔۔۔۔۔
معاویہ مجھ سے زیادہ سیاستدان اورذہین نہیں ہے لیکن وہ دھوکااورفریب دیتا ہے اورگناہ کرتا ہے اگر دھوکا اورفریب گناہ نہ ہوتا تو میں زیادہ ذہین اورسیاستمدار ہوتا لیکن ہرمکروفریب گناہ ہے اورہرگناہ کفر ہے ۔[21]
مذکورہ بالامطلب سے واضح ہوگیا کہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت صداقت کے عنصرپر قائم تھی اورصداقت کی اہمیت کے پیش نظر مالک اشتر کو بھی ارشاد فرماتےہیں کہ :وایاک والمن علی رعینک باحسانک او التزید فیما کان فعلک اوان تعدھم فتع موعدک بخلفک ان المن یبطل الاحسان والتزید یذھب بنورالحق ،والخلف یوجب المقت عنداللہ ۔[22]
اس مطلب سے واضح ہوتا ہے کہ حاکم صرف حکومت کی سیٹ تک پہنچنے کے لیے جھوٹے وعدے اورلوگوں کو فریب نہ دے لیکن آج کی سیاست میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی لوگ اپنے مذموم اہداف تک پہنچنے کےلیے جھوٹے وعدے،فریب اوردھوکے کا سہارا لیتے ہیں اورسیاست کو اسی چیز کا نام دیتے ہیں ۔
(۸):حسن سابقہ
امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں ایک وزیر کا حسن سابقہ رکھنا بہت اہم ہے اگر اس کا ماضی اس کے برے اعمال ،ظلم وستم ،خیانت اورفریب کو آشکارکرنے والا ہے تو وہ رہبری اورقیادت کے لائق نہیں ہے اوراس سلسلے میں علی علیہ السلام کا موقف سخت تھا اوربہت سی مشکلات اسی وجہ سے پیدا ہوئی امام کی نگاہ میں بہت سے فرمانراو ایسے تھے جو فرمانروائی کے قابل نہیں تھےعلی علیہ السلام نے ایک لحظہ بھی انہیں ان کے مقام پر برداشت کرنا گوارا نہ سمجھا اوردوسرا اپنے وفادارساتھیوں کو بھی اسی چیز کی تاکید فرماتے ۔مالک اشتر کو فرماتے ہیں :ان شرّوزرائک من کان لاشرار قبلک وزیرا ،ومن شرکھم فی الاثام فلایکونن لک بطانۃ ۔۔۔بدترین وزراء وہ لوگ ہیں کہ جو پہلے برے لوگوں کے وزیرتھے اوران کے گناہوں میں شریک تھے پس ایسا نہ ہو کہ ایسے افراد تمہارے ہم راز بن جائیں کیونکہ گناہگاروں کے یاورتھے اورظالم لوگوں کی مدد کرنے والے تھے پس تم ایسے افراد تلاش کرو جو فکری حوالے سے قوی اورمعاشرے میں جانی پہچانی شخصیات ہوں جنہوں نے کسی ظالم کی مددنہیں کی ایسے لوگ تیری نسبت مھربان تر ہوں گے ۔۔ان کو اپنی نجی اورسرکاری محفلوں میں دعوت کرو ۔[23]
(۹):ریاست طلبی سے پرہیز
ریاست طلبی ایک ھوای نفسانی ہے اس لیے امام علی نے مالک کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :ولاتقولن :انی مومر آمرفاطاع فان ذلک ادغال فی القلب ومنھکۃ للدین ۔ اورنہ کہنا :میں حاکم ہوں اورحکم دیتا ہوں اورحتما حکم جاری ہو ؛کیونکہ ایسی صفات دل کے فاسد اوردین اورحکومت کی نابودی کا سبب بنتا ہے ۔[24]امام علی مالک کو فرماتے ہیں کہ خدا کی قدرت اورعظمت کو ذہن میں رکھ اورجب حاکم ہونا تجھے مغرور بنانے لگے تو خدا کی قدرت اورعظمت کی طرف نگاہ کرنا ۔اسی طرح امام مالک کو ارشاد فرماتے ہیں کہ اس حکومت کو ایک اورنگاہ سے دیکھ اوروہ یہ ہے کہ یہ حکومت ایک امتحان ہے کہ خدا نے اس کے ذریعے لوگوں پر اس کو حاکم بنا کر اس کا امتحان لیتا ہے ۔[25]
ب:اجتماعی صفات
۱:خوش خلقی :
خوش خلقی کی اہمیت کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت کافی ہے کہ فرمایا:لوکنت فظاغلیظ القلب لانفضوا من حولک [26]
اور خود امام علی علیہ السلام کا یہ فرمان بھی اس کی اہمیت کو دوچندان کردیتا ہے کہ فرمایا:لاقرین کحسن الخلق ،خوش خلقی جیساکوئی ساتھی نہیں ۔[27]
نہج البلاغہ میں اس صفت کو ایک انسان کا امتیاز خاص بیان کیا گیا ہے امام علی علیہ السلام محمد بن ابوبکر اورمالک اشتر کو فرماتے ہیں کہ محبت ،مہربانی اورشاداب چہرے کے ساتھ لوگوں سے ملیں اوران کے مسائل سے آگاہی پیدا کریں امام علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :وأشعرقلبک الرحمۃ للرعیۃ ،والمحبۃ لھم ،واللطف بہم ،ولاتکونن علیہم سبعاضاریاتغتنم اکلھم،(نامہ ۵۳،ص۴۰۳،۴۰۴ترجمہ دشتی )
۲:تواضع وفروتنی
تواضع اورفروتنی ایسی صفات ہیں کہ جو ہرشخص کے لیے پسندیدہ ہیں حضرت علی علیہ السلام خطبہ نمبر ۱۹۲میں تواضع اورفروتنی کو انسان کی دنیوی اوراخروی کامیابی کا راز بتاتےہوئے لوگوں کو متوجہ کرتےہیں کہ اگر غرور اورتکبر کوئی اچھی چیز ہوتی تو خدا اپنے پیغمبروں کے لیے اسے انتخاب کرتا در حالانکہ خدا نے پیغمبروں کو تکبر اورغرور سے منع فرمایا ہے اورپیغمبران خود مومنین کے آگے تواضع اورفروتنی کرتے امام فرماتےہیں :ورضی لھم التواضع ،[28]خداوندمتعال نے انبیاء کے لیے تواضع کو انتخاب کیا ہے اسی طرح حکمت ۱۱۳میں امام تواضع کو انسان کی شخصیت کے عنوان سے یاد کرتے ہیں کہ تکبر اورغرور سے انسان کی شخصیت ظاہر نہیں ہوتی بلکہ تواضع سے ہوتی ہے فرماتے ہیں کہ لاحسب الاالتواضع [29]
ممکن ہے بعض لوگ جیسے رہبر اورحاکم ہیں کہ کسی عہدے پر پہنچ کر تکبر جیسی بیماری میں مبتلاء ہوجائیں جو ان کی بربادی اورنابودی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اسی لیے امام علی علیہ السلام مالک اشتر کو ارشاد فرماتے ہیں :اپنی رعیت کے سامنے تواضع اورانکساری سے پیش آنا۔[30]اور اسی طرح اگر کوئی سخت بات کہہ دے تو اس کو برداشت کرنے کی طاقت ایک حاکم میں ہونی چاہیے امام فرماتے ہیں :ثم احتمل الخرق منھم والعی ،ونح عنھم الضیق والانف یبسط اللہ علیک بذلک اکناف رحمتہ ؛ان میں سے اگر کوئی بدکلامی کا مظاہرہ کرے تو اسے برداشت کرو اوردل تنگی اورغرور کو دوررکھو تاکہ خدا تمھارے لیے رحمت کے دروازے کھول دے[31]
۳:لوگوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والا
حضرت امیر کے نورانی کلام سے ایک اورصفت جو ایک رہبر اورحاکم کے لیے ضروری ہے اورجس کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے وہ ہے لوگوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنا ۔کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے جس سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں جن میں عیب بھی ہوسکتے ہیں ،کیونکہ صرف معصوم ہستیاں ہی ایسی ہے اس دنیا پر جن میں کوئی عیب نہیں ورنہ دوسرے لوگ عیبوں سے بالکل پاک نہیں ہیں اسی لیے حاکم خدا کی اس(ستارالعیوب )صفت کا مظہر ہونا چاہیے جس طرح وہ خود امید رکھتا ہے کہ خدا اس کے عیبوں کو چھپائے رکھے تو وہ خدا کی مخلوق کے عیبوں پر پردہ ڈالے ،صرف یہ نہیں بلکہ مولائے کائنات کی نگاہ میں ایک حاکم ایسا ہونا چاہیے جو نہ خود عیب لوگوں کے بیان کرے اورنہ ایسے لوگوں کو اپنے پاس بیٹھنے دے جو دوسروں کے عیبوں کو تلاش کرکے انہیں رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ : فان فی الناس عیوبا،الوالی احق من سترھا ،فلاتکشفن عماغاب عنک منھا ،فانما علیک تطھیرما ظھرلک ۔۔۔۔۔فان الساعی غاش،وان تشبہ بالناصحین بہرحال لوگوں میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں اوران کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری خود والی پر ہے لہذاخبر دار جو تمہارے سامنے نہیں ہے اس کا انکشاف نہ کرنا ۔۔جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ان تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو جن اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگارسے تمنا رکھتے ہو ہرچغل خور کی تصدیق میں عجلت سے کام نہ لینا کہ چغل خور ہمیشہ خیانت کارہوتا ہے چاہے وہ مخلصین ہی کے بھیس میں کیوں نہ ہو .[32] /۹۸۹/ف۹۵۵/
حواله جات:
1۔سورہ شمس ،آیت ۹اور
2۔نھج البلاغہ ،نامہ ۵۳
3۔نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،نامہ ۲۷ص۵۱۳
4۔ایضا ،نامہ ۵۳،ص۵۷۳
5۔ایضا ،ص ۵۹۱
6۔ایضا ،مکتوب ۵۶،ص ۶۰۰۔۶۰۱
7۔اصول کافی ،کلینی ،ج۳،ص۱۵۳
8۔ایضا ،مکتوب ۵۳،ص ۵۸۳
9۔ایضا
10۔نھج البلاغہ ،ترجمہ دشتی ،مکتوب ۴۵،ص۳۹۳۔۳۹۴
11۔نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،خطبہ ،۲۰۹،ص۴۲۹
12۔غررالحکم ،حدیث نمبر ۸۴۳۸
13۔ایضا،حدیث نمبر ۵۵۷۱
14۔نھج البلاغہ ،مکتوب ۵۳
15۔ایضا،ترجمہ دشتی ،مکتوب ۵۳،ص۴۰۹
16۔ایضا،ترجمہ ذیشان حیدرجوادی ،کلمات قصار۲۷۴
17۔نھج البلاغہ ترجمہ ذیشان حیدرجوادی مکتوب ۲۶ص۵۱۱
18۔نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،مکتوب ،۵۳،ص۵۸۵
19۔ایضا،ص۵۸۷
20۔مجلسی ،بحارالانوار،ج۷۰،ص۹
21۔نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدرجوادی،خطبہ ۲۰۰،ص۴۲۱
22۔نھج البلاغہ ،مکتوب ۵۳
23۔ایضا،ص۵۷۷
24۔ایضا ،مکتوب ۵۳،ص۵۷۴
25۔ایضا،
26۔سورہ آل عمران آیت ۱۵۹
27۔نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،کلمات قصار ۱۱۳،ص۶۷۰
28۔ایضا،خطبہ ۱۹۲
29۔ایضا ،کلمات قصار۱۱۳
30۔ایضا ،مکتوب ۵۳
31۔نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،مکتوب ۵۳،ص۵۸۹
32۔ایضا،ص۵۷۷