رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی جریدے نیویارکر سے گفتگو میں امریکہ کو عہد شکن ملک قرار دیتے ہوئے محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران ہر بار امریکہ کے ساتھ نئے سرے سے مذاکرات نہیں کرے گا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے معاہدوں اور سمجھوتوں کی پابندی کو بین الاقوامی تعلقات کی اساس قرار دیتے ہوئے کہا کہ اعتماد کی بحالی امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی لازمی شرط ہے۔
انہوں نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی بنیاد پر ہی مذاکرت ہو سکتے ہیں۔
ادھر ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا ہے کہ امریکہ کی علیحدگی کے بعد ایٹمی معاہدے کے تحت ایران کے مفادات کی تکمیل کے حوالے سے تہران اور برسلز کے نظریات ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔
بہرام قاسمی نے کہا کہ ایران اور یورپ کے درمیان ہونے والے پے در پے مذاکرات کے بعد طے پایا ہے کہ نئے حالات کے مطابق باہمی تعاون کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
دوسری جانب ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سینیئر ایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایران اور یورپ کے درمیان مالیاتی میکنیزم امریکی پابندیوں کے نئے مرحلے کے آغاز یعنی چار نومبر سے پہلے پہلے اپنا کام شروع کر دے گا۔
سید عباس عراقچی نے ایرانی تیل کی برآمدات کو صفر تک پہنچانے کی امریکی کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے خلاف امریکی اقدامات کے، تیل عالمی کی منڈیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایران اپنے شرکا کے ساتھ مل کر تیل کی فروخت کا دو طرفہ نظام قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکی پابندیوں کو بائی پاس کرنے کے لیے مالیاتی لین دین کے لیے سوئیفٹ جیسے عالمی نظام کے قیام کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔
یورپی یونین کے امور خارجہ کی انچارج فیڈریکا موگرینی نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی مخالفت کے باوجود ایران کے ساتھ اقتصادی لین دین کے یورپی میکنیزم پر نومبر سے پہلے پہلے عمل درآمد شروع ہونے کا امکان ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایس وی پی سسٹم کا مقصد امریکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعاون کو جاری رکھنے کی غرض سے تیار کیا گیا ہے۔/۹۸۹/ف۹۴۰/