14 October 2018 - 07:53
News ID: 437385
فونت
امام سجادؑ سے یہ مضمون نقل کیا ہے ۔ جوں جوں جنگ کا وقت قریب آ رہا تھا حسین ابن علیؑ اور ان کے خاص اصحاب کی کیفیت یہ تھی کہ ان کے چہروں کے رنگ نکھرتے چلے جا رہے تھے ۔
روز عاشورہ

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ابن قولویہ اور مسعودی کے مطابق امام حسینؑ نے نماز صبح کی ادائیگی کے بعد نماز گزاروں کی طرف رخ کیا اور اللّه تعالٰی کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

"اللّه تعالٰی کا اذن آج میرے اور آپ کے مارے جانے کے متعلق آ پہنچا ہے۔ اب آپ سب کو چاہئیے کہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوے دشمن سے جنگ کریں

شیخ صدوق نے امام سجادؑ سے یہ مضمون نقل کیا ہے ۔ جوں جوں جنگ کا وقت قریب آ رہا تھا حسین ابن علیؑ اور ان کے خاص اصحاب کی کیفیت یہ تھی کہ ان کے چہروں کے رنگ نکھرتے چلے جا رہے تھے اور ان کے سکون اور اطمینان قلب میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اصحاب یہ منظر اور غیر معمولی جراٙت دیکھ کر متعجب تھے اور امام عالی مقام کے ملکوتی اور نور سے جگمگاتے چہرے کی سمت اشارہ کر کے کہتے تھے:

"اُنْظُرُوْا لاٰ یُبالی بِالْمٙوْتِ"  انہیں دیکھو، انہیں موت کی ذرہ برابر پرواہ نہیں

امامؑ نے جب اپنے اصحابؑ  کا یہ  جملہ سنا تو انہیں مخاطب کر کے فرمایا:

اے معزز لوگوں کی اولادو! صبر و تحمل سے کام لو- موت تو صرف ایک پل ہے جس کے ذریعے تم سختی اور مشکلات سے گزر کر وسیع و عریض جنت اور اس کی ہمیشہ رہنے والی نعمتوں تک پہنچ جاؤ گے۔ تم میں سے کون ہے جسے یہ بات پسند نہ ہو گی کہ وہ ایک قید خانے سے نکل کر محل میں منتقل ہو جاۓ؟

یہ موت تمہارے دشمنوں کےلئے ایسی ہی ہے جیسے انہیں کسی محل سے نکال کر قید خانے اور عقوبت گاہ میں ڈال دیا جاۓ۔

میرے والد گرامی نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اکرمؐ سے سنا ہےکہ "دنیا مومن کےلئے قید خانہ اور کافر کےلئے جنت ہے اور موت ایک پل ہے جو مومن کو جنت میں اور کافر کو جہنم میں پہنچا دیتی ہے"۔ میں جھوٹ نہیں بولتا اور نہ ہی مجھے کبھی جھوٹ بتایا گیا ہے

یہ کہنے کے بعد امامؑ نے اپنے لشکر کو منظم کیا جو مشہور قول کے مطابق بہتر افراد پر مشتمل تھا۔ میمنہ یعنی دائیں طرف کی فوج زہیر ابن قین کے سپرد کی, میسرہ یعنی بائیں طرف کی فوج حبیب ان مظاھرؓ کی سربراہی میں دی اور لشکر کا علم اپنے بھائی ابو الفضل العباسؑ کے حوالے کیا اور خود خاندان کے باقی افراد کے ساتھ لشکر کےوسط میں مستقر ہوئے۔

اسی دوران عمر ابن سعد بھی اپنے لشکر کی تنظیم و ترتیب میں مشغول تھا۔ جب امامؑ کی نظر دشمن کے کثیر لشکر پر پڑی اور آپ نے اپنے مقابلے پر دشمن کے پرہجوم لشکر کا مشاہدہ کیا تو دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور فرمایا:

بارِ الٰہا! ھر رنج و غم میں تو ہی میرا سہارا اور ھر مشکل میں تو ہی میری امید کا مرکز ہے۔ مجھ پر جب کبھی مصیبت نازل ہوئی، میں نے تیری ہی پناہ لی ہے، کتنے ہی ایسے مصائب و آلام آئے جب دل کمزور پڑ گئے، چارہ و تدبیر کے راستے بند ہو گئے، دوست ساتھ چھوڑ گئے اور دشمنوں نے خوشیاں منائیں۔ لیکن میں نے تیری ہی طرف رجوع کیا، تجھ ہی سے فریاد کی اور تیرے سوا ھر کسی سے بےنیاز ہو کر صرف تجھ ہی سے لو لگائی اور تونے مجھ سے ھر مصیبت کو دور کیا اور ھر رنج و الم سے مجھے نجات دلائی۔ بے شک تو ہی ھر نعمت کا مالک اور ھر حاجت کا مرکز ہے

باوجود یہ کہ امام حسینؑ دیکھ رہے تھے کہ دشمن ھر لحاظ سے جنگ کےلئے تیار ہے یہاں تک کہ اس نے امامؑ کی لشکرگاہ اور ان کے بچوں تک پر پانی بند کیا ہوا ہے اور جنگ شروع کرنے کےلئے ایک معمولی اشارے کے انتظار میں لمحہ لمحہ گن کر گزار رہا ہے لیکن آپ نے کربلا پہنچنے پر اپنا موقف واضح کیا کہ وہ نہ صرف جنگ کی ابتدا کرنے پر تیار نہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو دشمن کو وعظ و نصیحت کریں تاکہ ایک طرف تو حق و فضیلت کی راہ کو باطل سے جدا اور ممتاز کر کے دکھا دیا جاۓ اور دوسری طرف کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن کے لشکر کا کوئی ایک بھی شخص بےخبری اور نادانی میں امام کے قتل میں شریک ہو اور حقیقت سے لاعلم رہ کر ابدی ناکامی اور انحطاط و پستی کے گڑھے میں گر پڑے ۔۔۔

اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے امام حسینؑ اپنے لشکر کی تنظیم و ترتیب سے فارغ ہو کر گھوڑے پر سوار ہوئے، اپنے خیموں سے کچھ دور گئے اور عمر ابن سعد کے لشکر سے خطاب کرتے ھوۓ بلند آواز میں فرمایا:

"اٙیُّھٰاالنّٰاسُ اِسْمٙعوْاقٙوْلِی وٙلاٰ تٙعْجِِلُوا۔۔۔۔"

اے لوگو! میری بات سنو اور جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرو تاکہ تمہیں وعظ و نصیحت کے سلسلے میں، میں اپنی زمہ داری انجام دے سکوں اور تمہارے پاس انے کا سبب بتا سکوں۔ اگر تم نے میری بات قبول کی، میری تائید کی اور میرے بارے میں عدل و انصاف کا راستہ اختیار کیا تو اس طرح تم سعادت اور کامیابی حاصل کرو گے اور پھر میرے خلاف جنگ کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہو گی۔ لیکن اگر تم میری بات نہ مانو اور انصاف سے کام نہ لو تو پھر اپنا ارادہ پختہ کر لو اور اپنے حمایتیوں کو بلا لو اور تمہاری کوئی بات تم پر مخفی نہ رہے۔ اس کے بعد جو چاہو کر گزرو اور مجھے کسی طرح کی مہلت نہ دو۔ بےشک میرا مالک و مختار وہ خدا ہے جس نے کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک بندوں کا والی و وارث ہے ۔

کتب تاریخ کے مطابق جب امامؑ کی تقریر اس مقام پر پہنچی تو آپ کی گفتگو سننے والی بعض خواتین اور بچیوں کے رونے کی آواز بلند ہوئی۔ یہ دیکھ کر امامؑ  نے اپنی تقریر روک دی اور اپنے بھائی ابو الفضلؑ اور فرزند علی اکبرؑ سے فرمایا کہ انہیں خاموشی اور اطمینان سے بیٹھے رہنے کو کہیں۔ یہ جملہ بھی فرمایا کہ: مستقبل میں انہیں بہت رونا ہے

جب خواتین اور بچے خاموش ہو گئے تو امامؑ نے ایک بار پھر اپنی تقریر کا آغاز کیا اور اللّه تعالٰی کی حمد و ثنا کے بعد ایک اور خطبہ ارشاد فرمایا۔

اے اللّه کے بندو! خدا سے ڈرو اور دنیا سے ہوشیار رہو۔ اگر یہ دنیا کسی کےلئے باقی رہنے والی ہوتی اور کوئی اس دنیا میں ہمیشہ باقی رہ سکتا تو انبیاؑ اس کے سب سے زیادہ حق دار تھے اور ان ہی کی رضا کے حصول کےلئے ایسا کرنا بہتر تھا اور یہی حکم انتہائی پسندیدہ ہوتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اللّه تعالٰی نے دنیا کو فنا کےلئے خلق کیا ہے۔ اس کی ھر نئی چیز پرانی ہو جانے والی اور اس کی ھر نعمت زائل و برباد ہو جانے والی ہے۔ اس کی خوشیاں غم و اندوہ میں بدل جانے والی ہیں۔ یہ پست ٹھکانہ اور عارضی جاۓ سکونت ہے لہذا یہاں سے زادِ آخرت فراہم کر لو اور بہترین زاد آخرت تقویٰ ہے۔اللّه سے ڈرو شاید کامیاب ہو جاؤ۔

اے بندگان خدا۔ اللّه نے دنیا کو خلق فرمایا اور اسے فناو زوال کا گھر بنایا۔ یہ اپنے مکینوں کو ایک حال سے دوسرے حال میں الٹتی پلٹتی رہتی ہے۔

فریب خوردہ ہے وہ جسے دنیا دھوکے میں ڈال دے بدنصیب ہے وہ جسے دنیا اپنے فتنوں میں جکڑ لے۔ پس تم دنیا کے دھوکے میں نہ آ جانا کیونکہ جو کوئی بھی اس پر بھروسہ کرتا ہے یہ اس کی امیدوں کو منقطع کر دیتی ہے اور جو اس کی طمع کرتا ہے وہ محروم رہتا ہے

تم سب نے ایک ایسی بات پر ایکا کر لیا ہے جو خدا کے غیظ و غضب کا باعث بنے اور اس نے اپنا منہ تمہاری طرف سے پھیر لیا ہے اور تم پر اپنا عذاب مسلط کر دیا ہے۔ کتنا اچھا ہے ہمارا پروردگار اور کیسے بدکردار بندے ہو تم لوگ کہ اللّه کی اطاعت کا اقرار کیا اور اس کے رسول محمدؐ پر ایمان لائے اور پھر اسی رسولؐ کی آل و اولاد کو قتل کرنے کےلئے اس پر حملے کی تیاری کر رہے ہو۔ شیطان تم پر غالب آ گیا ہے اور تمہیں خدا کی یاد سے غافل کر دیا ہے۔ واے ہو تم پر اور تمہارے ارادوں پر۔ "اِنّٙا لِلّٰهِ وٙاِنّٙاٰ اٙلٙیْہِ رٰجِعْوٙنٙ" (ہم اللّه ہی سے ہیں اور اسی کی طرف واپس جائیں گے) ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کر لیا ہے اور یہ ظالم لوگ اللّه کی رحمت سے دور ہیں۔ /۹۸۹/ف۹۵۴/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬