رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اس مضمون میں سیرت نبویؐ کا ایک دل کش باب قارئین کی خدمت میں ہے، جہاں الفت و محبت ہے، لطف و کرم ہے، خوش طبعی اور خندہ روئی ہے، تفریح طبع اورمزاح لطیف ہے، مسکراہٹیں اور شادابی ہیں۔
سیرت کا یہ پہلو جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی نجی زندگی کا ایک پہلو روشن کرتا ہے وہیں دوسری طرف ہمیں زندگی گزارنے اور متعلقین کے ساتھ برتاؤ کرنے کا ایک اسوہ بھی سکھاتا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ تقویٰ، بزرگی اور عظمت چہرے پر رعونت طاری رکھنے، پیشانی پر شکن ڈالنے، گردن ٹیڑھی کرکے بات کرنے، حجرہ نشین ہونے، یا مہر بہ لب رہنے کا نام نہیں ہے، بلکہ اصل زندگی خوشیاں بانٹنے اور مسکراہٹیں بکھیرنے سے عبارت ہے۔
جس طرح رسول اکرم حضرت محمد (ص) کا لایا ہوا پیغام قرآن حکیم کی کتاب کی شکل میں حرف بہ حرف محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا اسی طرح آپؐ کی حیات طیبہ بھی واضح و روشن ہے۔ آپ کی ولادت سے لے کر آپ کی رحلت تک کے تمام واقعات، تمام جزئیات کے ساتھ سیرت اور احادیث کی کتابوں کی زینت ہیں۔
تاریخ کے راویوں اور سیرت نگاروں نے آپ کی زندگی کے اکثر واقعات، آپ کے روز مرہ کے معمولات اور ذاتی اوصاف کو واضح انداز سے بیان کیا ہے۔ آپ کی خلوت و جلوت، نشست و برخاست، آمد و رفت، سفر و حضر ، خواب و بیداری، بول چال، کھانا پینا، چلنا پھرنا، پہننا اوڑھنا، غرض آپ کی سیرت طیبہ کے تمام نہیں تو اکثر پہلو ضبط تحریر میں لائے جا چکے ہیں اور اہل فکر و نظر کی دسترس میں ہیں۔
سیرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قرآن نے اسوۂ حسنہ کہا ہے لہذا وہ اپنانے اور عمل کرنے کے لئے ہے۔ اگرچہ یہ سیرت ہر مسلمان بلکہ ہر انسان کے لئے اسوہ ہے لیکن سب سے پہلے اس سیرت کا عکس مذہبی راہنماؤں اور مذہبی افراد میں نظر آنا چاہئیے۔ یہاں پر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم سیرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عمل پیرا ہیں یا ہم معاشرے میں رائج ان اصولوں کو اپنائے ہوئے ہیں جو ایک مذہبی انسان سے معاشرہ طلب کرتا ہے اور جس سے معاشرہ ہمیں مذہبی سمجھنے لگتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذاتی اوصاف میں سے ایک یہ ہے کہ آپ اپنے وابستگان اور ساتھیوں کے ساتھ لطف و کرم، محبت و مؤدت اورنرمی اور شگفتگی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ آپ کے مزاج میں سختی اور درشتی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ کیا ہم جب مذہبی روپ اختیار کرتے ہیں تو ان اوصاف کا ظہور ہم سے ہوتا ہے یا یہ صفات ہم سے دور ہو جاتی ہیں؟
کیا ہم مذہبی بن کر اپنے ساتھیوں اور وابستگان سے زیادہ محبت و الفت پیدا کر لیتے ہیں یا ان پر فتووں کی بھرمار کرکے ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور انہیں ہر قیمت پر بے عمل اور خدا سے دور ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں کہ جس ذریعے سے ہماری مذہبی دھونس اور پاپائیت ثابت ہو جائے۔
قرآن کریم نے آپؐ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نرم مزاجی کے وصف کو اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے: فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِکَ۔ (آل عمران: 159)
(اے پیغمبرؐ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو، ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردو پیش سے چھٹ جاتے۔ درج بالا آیت کریمہ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالی کی ذات با بر کات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عوام الناس کے درمیان دیکھنا چاہتی ہے۔ آپ کا لوگوں کے درمیان رہنا مطلوب پروردگار ہے جبکہ ہم مذہبی انسان کو تارک دنیا اور ایک گوشہ نشین فرد کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جو ہمیشہ مصلیٰ عبادت کی زینت بنا رہے۔
آپؐ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ نرم مزاجی کا رویہ اور اسوہ سب متعلقین کے ساتھ یکساں تھا۔ اہل بیت علیھم السلام ہوں یا ازواج مطہرات، بچے ہوں یا بزرگ ، آپؐ کے قریبی ساتھی ہوں یا اجنبی افراد، سب آپؐ کے بحر الطاف و عنایات سے فیض یاب ہوتے تھے۔
آپؐ کی خوش طبعی اور خندہ روئی کا یہ معاملہ بچوں کے ساتھ ایسا تھا کہ آپؐ ان کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے، ان سے پیار بھری باتیں کرتے اور کبھی کبھی لطیف مزاح بھی فرماتے۔ امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کے ساتھ آپ کے پیار و محبت کے واقعات سے تو سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
یہاں پر اہل سنت کے منابع سے ایک واقعہ نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ بعض لوگوں نے آپؐ کو کھانے کی دعوت دی جب آپؐ ان کے یہاں جارہے تھے تب راستے میں آپؐ کے دونوں نواسے امام حسن و امام حسین علیھما السلام چند بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے ملے۔ آپؐ نے انھیں پکڑنا چاہا۔ وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ آپؐ ہنستے ہوئے انھیں پکڑنے کی کوشش کرنے لگے، یہاں تک کہ پکڑلیا۔ پھر اپنا ایک ہاتھ ان کی گُدّی پر اور دوسرا ان کی ٹھوڑی پر رکھا اور اپنا منہ ان کے منہ پر رکھ کر بوسہ لے لیا۔ (مسند احمد، 4/172)
سیرت نویسوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں لکھا ہے : ” کان صلی اللہ علیہ و آلہ فی بیتہ فی مھنت اھلہ ،یقطع اللحم ویجلس علی الطعام محقرا۔۔۔ویرقع ثوبہ و یخصف نعلہ و یخدم نفسہ ویقیم البیت و یعقل البعیر ویعلف ناضحہ و یطحن مع الخادم و یعجن معھا،و یحمل بضاعتہ من السوق،ویضع طھورہ با ا لیل بیدہ ،ویجالس الفقراءو یواکل المساکین و یناولھم بیدہ و یاکل الشاۃ من النوی فی کفہ ویشرب الماءبعد ان سقی اصحابہ و قال ساقی القوم آخرھم شربا۔۔۔”
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھرکے کاموں میں اپنے اہل خانہ کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے ،گوشت کاٹا کرتے تھے ، اور بڑے تواضع کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا کرتے تھے ، وضو کے لئے خود پانی لایا کرتے تھے ، فقیروں کے ساتھ بیٹھتے تھے ، مسکینوں کے ساتھ غذا تناول فرماتے تھے ، ان کے ساتھ مصافحہ کرتے تھے ، گوسفند کو اپنے ہاتھ سے غذا دیتے تھے ، اپنے ساتھیوں اور اصحاب کو پانی پلانے کے بعد خود پانی نوش فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ قوم کے ساقی کو سب سے آخر میں پانی پینا چاہئے)۔
درج بالا واقعات و روایات سے سیرت نبویؐ کا جو ایک باب کھولا گیا ہے اس سے عموماً آج کے دور کا مذہبی طبقہ غافل ہے۔ جس کی وجہ مذہب کا وہ غلط تصور ہے جو معاشرے کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے اور وہاں سے اپنا اثر دکھا رہا ہوتا ہے اور بسا اوقات ہم خود بھی اس سے غافل ہوتے ہیں کیونکہ یہ عوامی توقعات کی صورت میں مذہبی افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور ہم سیرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اسوہ بنانے کے بجائے عوامی خواہشات اور توقعات کے اسیر ہو جاتے ہیں۔
محدث قمی نے سفینۃ البحار میں ایک روایت نقل کی ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تھا آپ ایک عبا اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے تھے ایک بدو آیا اور آپ کی عبا کو پکڑ کر زور سے کھینچا جس سے آپ کی گردن پر خراش پڑگئی ۔ وہ آپ سے کہتا ہے کہ اے محمد میرے ان دونوں اونٹوں پر خدا کے اس مال میں سے جو تمہارے پاس ہے لاد دو کیونکہ وہ نہ تو تمہارا مال ہے اور نہ تمہارے باپ کا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کی یہ بات سنکرخاموش رہے اور فرمایا “المال مال اللہ وانا عبدہ” (سارا مال مال خدا ہے اور میں خدا کا بندہ ہوں) اس کے بعد فرمایا اے مرد عرب تو نے جو میرے ساتھ کیا ہے کیا اسکی تلافی چاہتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں کیونکہ تم اُن میں سے نہیں ہو جو برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں۔ آنحضرت یہ سن کر ہنس پڑے اور فرمایا کہ اس کے ایک اونٹ پر جَوْ اور دوسرے پر خرما لاد دیا جائے۔ اسکے بعد اسے روانہ کر دیا۔ (سفینہ البحار باب خلق)
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں بے انتہا قوت برداشت تھی اور آپ کسی کی غلطی حتی بدتمیزی پر بھی غصہ نہیں کرتے تھے بلکہ معاملہ کو نہایت خوش اسلوبی اور مسکراہٹ کے ساتھ حل کر دیا کرتے تھے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ آج کل کے مذہبی افراد سیرت کے اس پہلو سے بھی غافل ہیں اور بہت جلد غصے میں آ جاتے ہیں گویا قوت برداشت کا فقدان ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جوان نسل مذہبی راہنماؤں سے خوف کھانے لگی ہے یہاں تک کہ ان سے فقہی اور مذہبی سوال پوچھنے سے بھی ججھکتی ہے۔
شیخ صدوق نے امالی میں حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے ذریعےحضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک دفعہ ایک یہودی کو چند اشرفیاں قرض دیناتھیں ، یہودی نے آنحضرت سے قرضہ طلب کر لیا۔ آپ نے فرمایا میرے پاس تمھیں دینے کو کچھ نہیں ہے۔ یہودی نے کہا میں اپنا پیسہ لیئے بغیر آپ کو جانے نہیں دونگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اگرایسا ہے تو میں یہاں ہی بیٹھا رہوں گا پھر آپ اس کے پاس ہی بیٹھ گئے اور اس دن کی نمازیں وہیں ادا کیں۔
جب آپ کے صحابہ کو واقعے کا علم ہوا تو یہودی کے پاس آئے اور اسے ڈرانے دھمکانے لگے۔ آپ نے صحابہ کو منع فرمایا اصحاب نے کہا اس یہودی نے آپ کو قیدی بنا لیا ہے اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: “لم یبعثنی ربی بان اظلم معاھدا ولاغیرہ “ (خدا نے مجھے اس لئے نبی بنا کر نہیں بھیجا کہ میں ہم پییمان غیر مسلم یا کسی اور پر ظلم کروں ) اگلے دن یہ یہودی اسلام لے آیا اور کہا کہ میں نے اپنا نصف مال راہ خدا میں دیدیا اور کہاخدا کی قسم میں نے یہ کام اس لئے کیا کہ میں نے توریت میں آپ کی صفات اور تعریف پڑھی ہے۔
توریت میں آپ کے بارے میں اس طرح ملتا ہے کہ “محمد بن عبداللہ مولدہ بمکہ و مہجرہ بطیبہ ولیس بفظ ولاغلیظ و بسخاب و لا متزین بفحش ولاقول الخناء وانا اشھدان لا الہ الا ا للہ وانک رسول اللہ وھذا مالی فاحکم فیہ بما ا نزل اللہ “ (محمد ابن عبداللہ کی جائے پیدائش مکہ ہے اور جو ہجرت کر کے مدینے آئے گا نہ سخت دل ہے نہ تند خو ، کسی سے چیخ کر بات نہیں کرتے اور نہ ان کی زبان فحش اور بیہودہ گوئی سے آلودہ ہے ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور آپ اس کے رسول ہیں اور یہ میرا مال ہے جو میں نے آپ کے اختیار میں دیدیا اب آپ اس کے بارے میں خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں۔)
اس واقعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں معاشرے کے ہر طبقے سے میل میلاپ اور معاملات کرنا جائز تھا بلکہ ان کے ساتھ دھوکہ دہی یا انہیں نقصان پہنچانا ظلم سمجھا جاتا تھا جبکہ آج کے مذہبی طرزعمل نے مذہبی افراد کے مختلف ٹولے تشکیل دے دئے ہیں جو آپس ہی میں لین دین کرتے ہیں اور اس طرح اپنی کل معاشرت کو ایک خاص دائرے میں محدود کر لیتے ہیں یہاں تک کہ مذہبی لوگوں کے یہ گروہ اپنی وضع قطع، اٹھنا بیٹھنا حتی بول چال سے بھی با آسانی شناخت کر لئے جاتے ہیں۔ ستم بالائی ستم ہر مذہبی گروہ کا ممبر اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے سے پہلے اس گروہ کا ممبر اور نمائندہ سمجھنے لگتا ہے اور اسی دنیا میں خوش رہنے کو پسند کرنے لگتا ہے۔ /۹۸۹/ف۹۵۴/
سید امتیاز علی رضوی