تحریر: محمد لطیف مطھری
نواسہ رسول ؐ نئے سال کی ابتدا میں ہی کربلا میں پہنچ کر خیمہ زن ہوچکے تھے۔ نہ صرف نواسہ رسولؐ بلکہ رسول خدا کے اہل بیت ؑ اور دیگر رشتہ دار بھی کربلا کے میدان میں پہنچ کر مستقبل قریب کے منتظر تھے۔ زمین کربلا مضطرب دکھائی دے رہی تھی جبکہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و با وفادار اصحاب راز و نیاز اور دعا و مناجات میں مصروف نظر آرہے تھے۔ آل محمد کا یہ قافلہ سال کے شروع میں ہی ایک تپتے ہوئے ریگستان میں پہنچ چکا تھا اور نواسہ رسولؐ اپنے ساتھیوں کو شہادت کی خوشخبریاں سنا رہے تھے۔ یہ وہی حسین علیہ السلام تھے، جن کی شان میں رسولؐ خدا نے فرمایا تھا :(حُسَيْنٌ مِنّى وَ أَنـَا مِنْ الحُسَيْن، أَحَبَّ اللّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً) حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ یہ رسول اللہ ؐ کا وہی نور نظر تھا کہ جب آنحضرت رب کے حضور سر بسجود ہوئے تو آپ رسول خدا کے پیٹ پر سوار ہوئے اور رسول اللہ حکم خدا کے منتظر رہے اور رب کی طرف سے حکم ہوا کہ جب تک یہ معصوم بچہ خود سے نہ اترے آپ سجدے کی حالت میں ہی رہیں۔
آج یہی عظیم ہستی، اللہ کا یہی محبوب بندہ حج کو عمرے میں تبدیل کر کے کربلا پہنچ چکا تھا، تاکہ اموی استبداد اور ظالم و جابر حکمران کے ہاتھوں جان بلب اسلام کو ایک دفعہ پھر نئی زندگی عطا کرے اور اسلامی معاشرے کو اپنے خطوط پر استوار کرے، جن خطوط پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استوار فرمایا تھا۔ اسلامی تہذیب سے رخ پھیر کر جاہلیت کی طرف پلٹنے والی قوم کو پھر سے قرآن و سنت کے سائے میں بندگی کا درس اور تربیت دے کر پھر سے ایک مہذب قوم میں بدل سکیں۔ نواسہ رسول علیہ السلام پہلے سے مطلع تھے کہ اگر حج کو عمرے میں تبدیل نہ کریں تو شام کے درندہ صفت انسان جو حاجیوں کی روپ میں تھے، حسین ابن علی ؑکو خانہ خدا میں ہی شہید کر دیتے۔ نواسہ رسول نے مناسب نہ سمجھا کہ حرم پاک کی حرمت پامال ہو جائے، اس لئے آپ عمرہ کرکے بیت اللہ کی حرمت کو محفوظ رکھتے ہوئے کربلا پہنچ گئے۔ جس اسلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان کو ہتھیلی پر رکھ کر بڑی کوششوں اور ہزار زحمتوں، اذیتوں کو برداشت کرکے پالا تھا، آج وہی اسلام سرے سے مٹ رہا تھا اور مسلمانوں کے قلب و نظر میں اس کی جڑیں اس حد تک کمزور ہوچکی تھیں کہ جب تک خون سے انہیں سیراب نہ کیا جاتا اسلام کا زندہ رہنا محال نظر آرہا تھا۔
اس پس منظر میں نواسہ رسول ؐ نے یہ اعلان کرتے ہوئے قیام فرمایا: (إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب) میرا مقصد دنیاوی حکومت یا مال و زر کا حصول نہیں بلکہ اپنے نانا محمد مصطفٰیؐ اور بابا علی مرتضیٰ ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت محمدی کی اصلاح کرنا ہے۔ مفسدوں، ظالموں اور جابروں کے تباہ کاریوں سے دین اور مسلمانوں کو نجات دلانا ہے اور خون کے پیاسے درندہ صفت انسانوں کے مقابلے میں اسلام کی آبیاری کرنا ہے۔ واقعہ کربلا میں موجود انسانی تربیت کے جامع اور اعلیٰ ترین اصول کا درج ذیل زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
1۔ عدالت خواہی
عدل کا دائرہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے، انفرادی اور اجتماعی امور میں نظام عدل کے نفاذ کے ذریعے ہی فرد اور معاشرہ فلاح کی منزل سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ ظلم کے خلاف اور عدل کے حق میں قیام کرنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے "لیقوم الناس بالقسط" امام حسین علیہ السلام کے دور میں اموی حکومت غیر شرعی، غیر عادلانہ اور غیر قانونی طریقے سے وجود میں آئی۔ امویوں نے آل رسول کے علاوہ دیگر بندگان خدا پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا۔ مسلمانوں خاص طور پر امام حسین علیہ السلام کی ذمہ داری تھی کہ وہ ظلم کے خاتمے اور عادلانہ معاشرے کے قیام کی خاطر کوشش کریں۔ چنانچہ امام علیہ السلام نے ایک خطاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کا ذکر کرتے ہوئے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف قیام ضروری ہے۔ اپنے آپ کو اس قیام کے لئے سب سے زیادہ موزوں اور سزاوار فرد قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: (من رای سلطانا جائرا مستحلا لحرام اللہ۔۔)۱. ایک جگہ آپ نے بنی امیہ کو آل رسول پر ظلم کرنے کا مجرم قرار دیا اور کہا:(و تعدت بنو امیہ علینا)2
کوفہ کے روساء کے نام خط میں آپ نے برحق امام کی یہ خصوصیت بتائی کہ وہ عدل قائم کرنے والا ہے(ما الامام الا الحاکم بالکتاب القائم بالقسط۔۔)۳۔ کوفہ میں امام کے سفیر مسلم بن عقیل نے اپنی گرفتاری کے بعد ابن زیاد سے فرمایا: میں اس لئے آیا ہوں تاکہ عدل قائم کروں اور قرآن کی طرف بلاوٴں۔۴ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ایک جملہ یہ ہے :(اشھد انک اقمت بالقسط و العدل و دعوت الیھما۔۔۔) میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے عدل اور انصاف کے مطابق حکم دیا اور ان دونوں کی طرف دعوت دی۔ ۵۔ حق، عدل اور انصاف کی بالا دستی کی خاطر کام کرنے والوں کے لئے قیام حسینی میں لازوال دروس مضمر ہیں۔ امام خمینی(رہ) فرماتے ہیں: "سید الشہدا علیہ السلام کے قیام کے ابتدائی دن سے ہی آپ کا مقصد یہ تھا کہ عدل قائم کیا جائے۔"۶ سید الشہداء علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی برائیوں کو ختم کرنے اور ظالم حکومتوں کے مذموم مقاصد کی روک تھام کی کوشش میں گزاری۔۷ قیام حسینی نظام عدل کی واپسی اور ظالمانہ نظام کی اصطلاح کی لازوال تحریک کا نام ہے۔ حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے یزیدکی مذمت کرتے ہوئے عدل کا تذکرہ کیا اور فرمایا: "اے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد: کیا یہ عدل اور انصاف ہے کہ تو اپنے اہل و عیال کو پردے کے اندر رکھے اور رسول کی بیٹیوں کو اسیر بنا کر پھرائے؟"۸
2۔ باطل سے مقابلہ
فکری، نظریاتی، دینی، اقتصادی، سیاسی، اخلاقی اور دیگر میدانوں میں حق و باطل کی جنگ ہر دور میں جاری رہی ہے۔ انبیاء، اولیاء اور ائمہ علیہم السلام نے ہر دور میں باطل سے جنگ کی ہے۔ (بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھو زاھق)۹۔ خدا، اسلام، انبیاء، ائمہ ہدیٰ، اسلامی حکومت، قرآن وغیرہ حق ہیں۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام اور حضرت علی علیہ السلام مجسمہ حق تھے۔ یزید کی ظالم اور باطل حکومت کی مخالفت امام حسین علیہ السلام کی ذمہ داری تھی۔ آپ نے اپنے قیام کے اسباب بتاتے ہوئے فرمایا: (الا ترون ان الحق لایعمل بہ و الباطل لا یتناھی عنہ) "کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے اجتناب نہیں برتا جا رہا۔؟"۱۰
3۔ بدعت سے مقابلہ
باطل کا ایک اور مصداق بدعت ہے۔ بدعت یہ ہے کہ جن امور کا دین سے تعلق نہ ہو، انہیں دین میں شامل کیا جائے۔ بنی امیہ نے بدعتوں کو رائج کیا۔ امام حسین علیہ السلام نے ان بدعتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان دے دی۔ آپ نے فرمایا:(فان السنۃ قد امیتت و ان البدعۃ قد احییت)۱۱۔اہل بیت علیہم السلام اور بنی امیہ کی جنگ دو خاندانوں کی جنگ نہ تھی بلکہ حق و باطل کا معرکہ تھا، حق اور بدعت کا مقابلہ تھا۔ اسی لئے امام نے فرمایا:(نحن و بنی امیہ اختمصنا فی اللہ عزوجل قلنا صدق اللہ و قالو کذب اللہ) بنی امیہ کے ساتھ ہمارا اختلاف خدا کے معاملے میں ہے۔ ہم نے اللہ کی تصدیق اور انہوں نے خدا کی تکذیب کی ہے۔۱۲
4۔ اسلامی حکومت کا احیاء
قیام حسینی کا مقصد اسلامی حکومت کا احیاء، حق کی بنیاد پر اسلامی حکومت کا قیام اور ظلم کی بنیادوں پر استوار نظام حکومت کے خاتمے سے عبارت تھا۔ امام حسین علیہ السلام اپنی حقانیت کے اثبات اور امویوں کی باطل حکومت کے خاتمے کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "خلافت کے ان ناحق دعویداروں کے مقابلے میں ہم اہل بیت علیہم السلام تم پر حکومت کرنے کے زیادہ سزاوار ہیں۔ یہ لوگ تمہارے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔"۱۳
5۔ حق کا دفاع
سید الشہداء علیہ السلام نے اپنے عظیم تربیتی مشن کے پیش نظر لوگوں کو دعوت دی کہ وہ حق کی حمایت کریں، مظلوموں کا ساتھ دیں اور اہل بیت کی مدد کریں۔ یہاں تک کہ آپ نے عبید اللہ جعفی کو بھی دعوت دی، جو کوفہ کے جدید حالات سے لاتعلق رہنا چاہتا تھا۔ امام علیہ السلام نے حر سے فرمایا: "توبہ کے ذریعے گذشتہ گناہوں کے داغ دھو لو۔ میں تجھے ہم اہل بیت کی نصرت کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر ہمارا حق ہمیں دیا گیا تو ہم قبول کریں گے۔ اگر نہ دیا گیا اور ہم پر ظلم روا رکھا گیا تو تو حق کی خاطر میری مدد کرنے والوں میں شامل ہوگا۔"۱۴حق اور عزت کی خاطر کی خاطر مرنا سید الشہداء علیہ السلام کے ہاں زندگی ہے۔ فرمایا: (ما اہون الموت علی سبیل نیل العز و احیاء الحق) عزت و عظمت کے حصول اور احیائے حق کے لئے مرنا کتنا آسان ہے۔۱۵ سفر کربلا کے دوران ایک بار حضرت علی اکبر علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام سے پوچھا: کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں۔ حضرت علی اکبر علیہ السلام نے عرض کیا: اے بابا؛ پھر ہمیں موت کی کوئی پروا نہیں۔(یا ابتی اذا لا نبالی بالموت)۱۶
6۔ خاموش نہ رہنا
حق و باطل کے معرکے میں خاموش رہنا جرم ہے، کیونکہ یہ حق کو کمزور کرنے اور باطل کی تقویت کا موجب ہے۔ جنگ صفین حق و باطل کا واضح معرکہ تھا، لیکن کچھ لوگوں نے بے طرفی کی روش اپنائی اور حق کا ساتھ نہ دیا۔ امیر المومنین علیہ السلام نے ان لوگوں کی مذمت کی اور فرمایا: "ان لوگوں نے حق کو بے یار و مددگار بنا دیا، اگرچہ باطل کی مدد نہیں کی۔"۱۷ قیام امام حسین علیہ السلام کے دوران بھی کچھ لوگوں نے بہانے بناتے ہوئے امام کا ساتھ نہ دیا۔ بعض لوگوں نے امام کی دعوت ان سنی کر دی۔ احنف بن قیس نے عصر رسول اور عصر امیر المومنین کی جنگوں میں ان کا ساتھ دیا تھا، لیکن امام حسین علیہ السلام کا ساتھ نہ دیا بلکہ آپ کو قیام سے منع کیا۔ مدینہ میں امام علیہ السلام نے مروان سے فرمایا: "میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آل ابوسفیان پر خلافت حرام ہے، لیکن مسلمانوں نے سہل انگاری کی تو خدا نے یزید کو ان پر مسلط کر دیا۔"۱۸ امام حسین علیہ السلام نے ایک دفعہ لوگوں سے فرمایا: "اگر تم لوگ ہماری مدد اور ہمارے ساتھ انصاف نہ برتو گے تو ظالم لوگ تمہارے مقابلے میں طاقتور بن جائیں گے اور تمہارے نبی کے نور کو بجھانے کی کوشش کریں گے۔"۱۹ یوں امام نے سمجھایا کہ اگر لوگ حق اور امام برحق کی حمایت کے معاملے میں کوتاہی برتیں گے تو حق کمزور ہوگا اور طاغوت کو غلبہ حاصل ہوگا۔
7۔ حامیان حق کی عظمت
قرآن کی رو سے حق پائیدار ہے اور باطل ناپائیدار۔۲۰ اسی لئے جو حق کی حمایت کرتا ہے اور حق کے مطابق زندگی گزاراتا ہے، اسے دائمی فتح، زندگی اور عزت مل جاتی ہے، اگرچہ وہ بظاہر کمزور، محروم اور مغلوب ہو۔ بقول امیر المومنین علیہ السلام: (الحق دولۃ و الباطل جولۃ) باطل عارضی شے ہے جبکہ حق ایک دائمی فتح ہے۔۲۱ حق کی خاطر جان دینے والا حسین علیہ السلام اربوں لوگوں کے دلوں پر حکومت کر رہا ہے اور انسانیت کی پیشانی کا جھومر ہے۔ معاویہ کی موت کے بعد والی مدینہ سے ملاقات سے پہلے امام حسین علیہ السلام نے اپنے خاندان کے لوگوں سے فرمایا: "میں ان لوگون کا تسلط اور ذلت ہرگز قبول نہیں کروں گا۔" امام علیہ السلام نے اپنے پیروکارون کو درس دیا کہ حق کی حمایت اور باطل سے ٹکرانے میں ہی عزت اور زندگی ہے، جبکہ باطل سے مرعوب ہونا اور اس کا ساتھ دینا موت کے مترادف ہے۔ فرمایا: (انی لا اری الموت الا سعادۃ و الحیاۃ مع الظالمین الا برما)۲۲
8۔ حامیان باطل کی ذلت
مظلوم کا ناحق خون ظالم کے دامن کو جکڑ لیتا ہے اور اسے ذلت و خواری سے دوچار کرتا ہے۔ بطن العقبۃ میں ایک شخص نے امام کو کوفہ کے نامساعد حالات کی خبر دی اور وہاں نہ جانے کا مشورہ دیا۔ آپ نے فرمایا: "اللہ کی قسم یہ لوگ میرا خون بہا کر ہی دم لیں گے۔ پس خدا ان پر اس شخص کو مسلط کرے گا، جس کے ہاتھوں وہ ذلیل ترین لوگ قرار پائیں گے۔"۲۳ سانحہ عاشورا کے مجرم انتقام الہیٰ کے شکار ہوئے۔ شیخ مفید(رہ) نقل کرتے ہیں کہ بہت سی احادیث کی رو سے شہدائے کربلا کا کوئی قاتل موت، بلا یا رسوائی سے نہیں بچ سکا۔ وہ سب اپنی طبیعی موت سے پہلے کیفر کردار کو پہنچ گئے۔۲۴ خلاصہ یہ کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے ذریعے انسانی تربیت کے لئے جامع اور اعلیٰ ترین اصول دنیا کے سامنے رکھے۔ ان اصولوں میں انفرادی و اجتماعی بیداری کا اصل، امر بالمعروف اور نہی از منکر کا اصل، ظلم ستیزی اور حق پرستی کا اصل، بدعت کے خلاف جنگ کا اصل، عزت نفس، معاشرتی اصلاح کا اصل، عدل گستری کا اصل اور احساس ذمہ داری کا اصل وغیرہ شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام
2۔ علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۴۶، ص2914۔
3۔ شیخ مفید، الارشاد، ج۲ ص39۔
4۔ ایضا۔
5۔ قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان، ص439۔
6۔ امام خمینی، صحیفہ نور، ج۲ ص189۔
7۔ ایضا۔
8۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج45 ص152
9۔ انبیاء، 18۔
10۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج44 ص381
11۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول عن آل الرسول۔ ایضاً، ص360۔
12۔ موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام
13۔ ابن مخنف، وقعتہ الطف، ص144۔ تحقیق، حسن غفاری۔
14۔ کلمات امام حسین علیہ السلام
15۔ امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج۱، ص184۔
16۔ ابن مخنف، وقعتہ الطف، ص144۔ تحقیق، حسن غفاری۔
17۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، حکمت،۱۸۔
18۔ خوارزمی، محمد بن احمد مکی، مقتل الحسین، ج۱، ص236۔
19۔ ابن شعبۃ الحرانی، تحف العقول عن آل الرسول، ص236۔
20۔ اسراء،81۔
21۔ آمدی عبد الواحد، غرر الحکم، ج۵ ص205۔
22۔ موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام
23۔ ایضاً۔
24۔ مفید بن نعمان، ارشاد، ج۲، ص۷۶۔
/۹۸۸/ ن۹۴۰
منبع: اسلام ٹائمز