تحریر: ثاقب اکبر
خوارج صدر اسلام کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ جنگ صفین کے موقع پر یہ گروہ نمایاں ہوا۔ مسلمانوں کے مابین ایک منظم تکفیری گروہ کے اعتبار سے اسے اوّلیت حاصل ہے۔ اس گروہ نے اپنے تمام مخالفین کو کافر قرار دیا، یہاں تک کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؑ تک کو انہوں نے معاف نہیں کیا۔ یہ لوگ اپنے ظواہر کے اعتبار سے بڑے خالص مذہبی تھے اور اپنی مذہبی فکر کے لحاظ سے بہت متشدد تھے۔ قرآن حکیم میں رسول اللہ کے ساتھیوں کی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ کافروں پر شدید ہیں اور آپس میں رحمدل ہیں۔(۱) بدقسمتی سے خوارج اس کے بالکل برعکس تھے۔ وہ درختوں کو ناجائز کاٹنے سے پرہیز کرتے تھے، لیکن اپنے مخالف فکر مسلمانوں کو قتل کرنا ان کے لئے بہت آسان تھا۔(۲) تاریخ ان کی سفاکی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ وقت گزرتا رہا اور اسلام کی مختلف تعلیمات کے حوالے سے ان کے مزید شدت پسندانہ نظریات سامنے آتے رہے۔ ابتدائی خوارج نے گناہان کبیرہ کے مرتکب کو بھی کافر قرار دے دیا۔ بات یہاں تک نہ رکی، بعض خوارج کے نزدیک گناہان صغیرہ انجام دینے والے بھی کافر قرار پائے۔
بعد میں ان کے کئی گروہ ہوئے، جو مختلف ادوار میں حکومتوں سے نبرد آزما رہے۔ انہیں بعض مقامات پر سیاسی کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں، تاہم اپنی شدت پسندی ہی کی وجہ سے وہ آخر کار مسلمانوں کے سواد اعظم میں جذب نہ ہوسکے۔ جہاں تک خوارج کے نام سے کسی گروہ کے باقی رہنے کا تعلق ہے تو عصر حاضر میں کوئی گروہ اپنے آپ کو ان ابتدائی خوارج سے منسلک قرار نہیں دیتا، جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں، اگرچہ سلطنت عمان میں ایک گروہ اباضیہ کے نام سے موجود ہے، تاہم وہ اپنے آپ کو صدر اسلام کے خوارج کے بعض نظریات سے بری قرار دیتے ہیں۔(۳) دوسری طرف خوارج کی صفات اور خصوصیات کے حامل گروہ ہر دور میں موجود رہے ہیں اور گذشتہ چند دہائیوں سے مسلمان معاشروں میں ایسے بہت سے گروہ سامنے آچکے ہیں، جنھوں نے اسلامی سرزمینوں میں تکفیر اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور اب بھی رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے زمانے کے خوارج نے بھی کوئی جنگ غیر مسلموں سے نہیں کی اور عصر حاضر کے خوارج نے بھی کوئی معرکہ غیر مسلموں سے نہیں لڑا۔ ان کی تمام تر نبرد آزمائیاں مسلمانوں کے اندر، مسلمان معاشروں سے اور خود مسلمانوں سے رہی ہیں۔
عصری خارجیت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ صدر اسلام کے خوارج کے عقائد پر ایک نظر ڈالی جائے۔ مختلف مورخین نے ان کے عقائد بیان کئے ہیں۔ ہم ذیل میں ان کا خلاصہ نقل کرتے ہیں:
1۔ خوارج حضرت ابوبکر ؓو حضرت عمرؓ کی خلافت کو درست مانتے تھے، تاہم ان کے تئیں حضرت عثمان ؓاپنی خلافت کے آخری دور میں خلاف عدل و حق اقدامات کے سبب کافر ہوگئے تھے۔ تحکیم کو قبول کرنے کے سبب ان کے نزدیک حضرت علیؓ بھی کافر تھے۔ وہ معاویہ، اصحاب جمل، اصحاب تحکیم اور جو حکمیت پر راضی ہوئے، سب کو کافر سمجھتے تھے۔ بعد کے خلفاء بھی ان کے نزدیک کافر تھے۔
2۔ جو لوگ حضرت علیؓ حضرت عثمان ؓکو کافر نہیں جانتے تھے، خوارج کے نزدیک وہ بھی کافر تھے۔
3۔ خوارج کے نزدیک ایمان فقط قلبی عقیدہ سے عبارت نہیں بلکہ اوامر پر عمل اور نواہی کو ترک کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے۔ گویا ایمان اعتقاد وعمل کا مرکب ہے۔
4۔ ان کے مطابق ظالم والی و امام کے خلاف خروج بلاشرط واجب ہے۔ ان کے عقیدے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کسی اور شے سے مشروط نہیں بلکہ اس الٰہی حکم پر عمل درآمد ہر مقام پر بلا استثناء واجب ہے۔
5۔ اپنے علاوہ وہ سب کو کافر سمجھتے تھے، کافر کا خون بہانا ان کے نزدیک جائز تھا اور اپنے علاوہ ہر شخص کو دائمی جہنم کا حقدار سمجھتے تھے۔
6۔ ان کے مطابق ضروری نہ تھا کہ خلیفہ قریشی ہو۔ ان کا عقیدہ تھا کہ خلیفہ کو آزاد انتخاب سے چنا جانا چاہیئے۔
7۔ گناہ ان کے نزدیک کفر کا ہم معنی تھا اور ہر مرتکب کبیرہ (اگر وہ توبہ و رجوع نہ کرے) کو کافر قرار دیتے تھے۔
8۔ ان کے خیال میں خلیفہ جب تک طریق عدل و صلاح پر رہے، اس کی اطاعت واجب ہے مگر جب وہ اس طریق سے ہٹ جائے تو اس سے لڑنا اور اسے قتل کر دینا بھی واجب ہے۔(۴)
خوارج کی مذہبی ذہنیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے بارے میں بڑے محتاط تھے۔ کھانے پینے میں حرام و حلال کا بڑی شدت سے خیال رکھتے تھے۔ غیر مسلموں کے حقوق اور جان و مال کی پاسداری پر قائم تھے، لیکن اپنی رائے سے اختلاف کرنے والے مسلمانوں کا خون بے دردی سے بہا دیتے تھے۔ تاریخ طبری، تاریخ کامل اور دیگر تواریخ میں اُن کے بارے میں عجیب و غریب واقعات درج ہیں۔
استاد مرتضی مطہری نے اس مسئلے کو بیان کیا ہے کہ خوارج کا نام تو ختم ہوگیا ہے لیکن ان کی روح کئی لوگوں میں حلول کی ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: "خوارج کا مکتب ایسا نہ تھا کہ جو واقعاً باقی رہ سکتا، لیکن اس مکتب نے اپنا اثر باقی رکھا۔ خارجیت کے افکار و عقائد دیگر اسلامی فرقوں میں نفوذ کر گئے اور آج بھی بڑی تعداد میں ”نہروانی“ موجود ہیں اور حضرت علی کے عہد کی طرح آج بھی یہی اسلام کے خطرناک ترین داخلی دشمن ہیں۔۔۔ خارجیت اور خوارج کے بارے میں مذہبی بحث کا کوئی مصداق نہیں اور اس سلسلے میں گفتگو بے تاثیر ہے، کیونکہ آج دنیا میں ایسا کوئی مذہب موجود نہیں، لیکن اس کے باوصف خوارج کی ماہیت کار کے بارے میں گفتگو ہمارے اور ہمارے معاشرے کے لئے سبق آموز ہے، کیونکہ مذہب خوارج اگرچہ ختم ہوگیا ہے، لیکن اس کی روح نہیں مری۔ خارجیت کی روح ہم میں سے بہت سے لوگوں میں حلول کرچکی ہے۔(۵) گذشتہ تین دہائیوں میں عالم اسلام میں جو شدت پسند گروہ ظاہر ہوئے، ان میں سے بعض کے ناموں سے ہمارے عوام واقف ہیں، مثلاً القاعدہ، بوکو حرام، لشکر جھنگوی، ٹی ٹی پی اور داعش وغیرہ۔ یہ سب گروہ اپنے مخالفین کو لائق گردن زدنی قرار دیتے ہیں، یہ کسی ملک کے قانون اور آئین کو تسلیم نہیں کرتے، قرآن اور حدیث کی بھی ان کی اپنی تعبیر ہے۔ یہ سب گروہ تکفیریت میں مشترک ہیں اور اپنے ہر مخالف کو کافر سمجھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ مُحَمَّد µ رَّسُو ±لُ اللّٰہِ وَالَّذِی ±نَ مَعَہ ¾ٓ اَشِدَّآئُ عَلَی ال ±کُفَّارِ رُحَمَآئُ بَی ±نَہُم ±۔۔۔ سورہ فتح:۹۲
۲۔ الطبری، ابو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم والملوک (بیروت: دارالکتب العلمیہ، ۱۹۹۱ئ)ج۲،ص ۹۱۱
۳۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ماہنامہ پیام اسلام آباد، بابت اگست ۸۱۰۲ میں مفتی امجد عباس کا تحقیقی مقالہ”اباضیہ ایک اجمالی تعارف“
۴۔ مودودی ،ابوالاعلیٰ : خلافت وملوکیت ،ص ۵۔۳۱۲ط: اسلامک پبلیکیشنز لمٹیڈ، لاہور، اشاعت ششم،(۲۷۹۱)،
استاد مرتضیٰ مطہری ،جاذبہ ودافعہ علیؑ ،باب نہم،( انتشارات صدرا، تہران ، تابستان 1368ھ شمسی) نیز احمد امین المصری :ضحی الاسلام، ج: 3،ص: 330)
5۔ استاد ،مرتضیٰ مطہری(م:1979): جاذبہ ودافعہ علی ؑ،باب نہم،(انتشارات صدرا،تہران،1368ھ شمسی)،ص:۸۲۱تا۰۳۱
منبع: اسلام ٹائمز
/۹۸۸/ ن۹۴۰