14 November 2018 - 12:06
News ID: 437653
فونت
حضرت ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان ایسے تشریف فرما ہوتے تھے کہ اجنبی یہ نہیں پہچان سکتا تھا کہ ان میں رسول اللہ کون ہیں بلکہ اسے آپ کے بارے میں پوچھنا پڑتا تھا یعنی آپ اپنے لئے کسی بھی طرح کا امتیاز روا نہیں رکھتے تھے۔
رسول اکرم

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سورہ توبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعریف میں ارشاد ہوتا ہے “لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیزعلیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم فان تولوا فقل حسبی اللہ لا الہ الا ا للہ ہو علیہ توکلت و ہورب العرش العظ” (یقیناً تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے ، وہ تمہاری ہدایت کے لئے حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق و مہربان ہے اب اس کے بعد بھی یہ لوگ منہ پھیر لیں تو کہہ دیجئے کہ میرے لئے خدا کافی ہے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے میرا اعتقاد اسی پر ہے اور وہی عرش اعظم کا پروردگار ہے)

اس آیت میں نہایت خوبصورت انداز سے یہ بتایا گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں کے لئے نہایت شفیق و مہربان تھے اور اسی شفقت اور مہربانی کا تقاضا تھا کہ آپ لوگوں کو ہدایت یافتہ دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لئے بہت محنت کرتے تھے۔ آج کے مذہبی انسان کی کل توجہ اپنی ذات کی طرف ہی مرکوز رہتی ہے اور اگر اس کا رخ اپنے علاوہ باقی مخلوق کی طرف پلٹ بھی جائے تو وہ شفقت سے زیادہ نفرت کا عنصر لئے ہوتا ہے۔ اس آیت کی روشنی میں تبلیغی مقام پر لوگوں نے آپ سے رخ موڑا ہے آپ نے لوگوں سے نہیں اور لوگوں نے آپ سے منہ موڑا تب بھی آپ نے اسے نہایت مثبت انداز سے لیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معروف صحابی اور خدمتگذار انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے نو سال آنحضرت کی خدمت کی اس دوران آپ نے کبھی بھی مجھ پر اعتراض نہیں کیا اور نہ میرے کام میں کوئی عیب نکالا۔ ایک اور روایت کے مطابق انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کی اس مدت میں آپ نے مجھ سے اف تک نہ کہا۔

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا یہ عجیب پہلو ہے کہ آپ نے اپنے ملازم و خدمتگذار کو دس سال میں ایک دفعہ بھی اُف تک نہیں کہا جبکہ انسانوں سے ایسا کرنا اپنے والدین اور اہل وعیال کے لئے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اوہ ۔۔۔۔۔آج کے مذہبی راہنماؤں کی تقاریر ہی کا جائزہ لے لیجئیے جہاں آج انسانی ہدایت کے نام پر منبر رسول سے گالم گلوچ اور طوفان بدتمیزی برپا کیا جا رہا ہے اور سامعین واہ واہ کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔

انس بن مالک سے ایک اور روایت ہے کہ افطار اور سحر میں آپ یا تو دودھ تناول فرمایا کرتے تھے یا پھر کبھی کبھی دودھ میں روٹی چور کے نوش کیا کرتے تھے۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ ایک رات میں آپ کے لئے دودھ اور روٹی مہیا کی لیکن آپ دیرسے تشریف لائے میں نے یہ سوچا کہ افطار پر اصحاب نے آپکی دعوت کی ہے اور میں نے آپ کی غذا کھا لی، کچھ دیر بعد آپ تشریف لے آئے ، میں نے آپ کے ایک صحابی سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ نے افطار کا کھانا تناول کیا ہے کیا کسی نے افطار پر آپ کی دعوت کی تھی، صحابی نے نفی میں جواب دیا۔

وہ رات میرے لئے بڑی کربناک رات تھی صرف خدا ہی میری پریشانی سے واقف تھا مجھے یہ ڈر کھائے جا رہا تھا کہ کہیں آپ مجھ سے اپنی غذا طلب نہ فرما لیں اور میں آپ کے سامنے شرمندہ ہو جاؤں لیکن اس رات رسول اللہ نے افطار کا کھانا نہیں کھایا اور آج تک اس کے بارے میں مجھ سے سوال نہیں فرمایا۔

یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ آپ کی سیرت میں یہ شامل تھا کہ آپ کسی کو اس مقام پر نہیں لاتے تھے کہ وہ کسی دوسرے انسان کے سامنے شرمندہ ہو۔ آپ یہ سمجھتے تھے کہ اگر کھانا موجود ہوتا تو انس ضرور پوچھتے اور اب چونکہ انس نے پوچھا نہیں ہے لہذا کوئی مشکل ہے۔ اب آپ نے انس بن مالک سے خود سے پوچھنے سے اجتناب کیا تاکہ وہ شرمندہ نہ ہو۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت میں نرم مزاجی کی صفت کا ایک پہلو یہ ہے کہ  آپ اپنے لئے کسی خاص امتیازات کے قائل نہ تھے بلکہ اپنے آپ کو اجتماع میں موجود باقی لوگوں کے برابر ہی پیش کرنا چاہتے تھے۔

حدیث میں ہے کہ ایک سفر میں آپ نے گوسفند ذبح کرنے کا حکم دیا۔ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک نے کہا میں گوسفند ذبح کر دونگا ، دوسرے نے کہا میں اس کی کھال اتار دوں گا،تیسرے نے کہا گوشت پکانا میری ذمہ داری ہے آپ نے فرمایا میں لکڑیاں لے آؤں گا۔اصحاب نے عرض کیا آپ زحمت نہ فرمائیں ہم آپ کا کام کر دیں گے۔

آپ نے فرمایا میں جانتا ہوں لیکن مجھے پسند نہیں ہے کہ میں تم لوگوں سے ممتاز رہوں کیونکہ خدا کو بھی یہ پسند نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ لکڑیاں جمع کرنے کے لئے روانہ ہو گئے۔

حضرت ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان ایسے تشریف فرما ہوتے تھے کہ اجنبی یہ نہیں پہچان سکتا تھا کہ ان میں رسول اللہ کون ہیں بلکہ اسے آپ کے بارے میں پوچھنا پڑتا تھا (یعنی آپ اپنے لئے کسی بھی طرح کا امتیاز روا نہیں رکھتے تھے )۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں کسی طرح کی اونچ نیچ نہیں ہوتی تھی سب ایک سطح پر بیٹھتے تھے۔

آج کی کوئی مذہبی محفل یا مجلس مکمل تصور نہیں کی جاتی جب تک کہ اس میں کوئی سجادہ نشین نہ ہو۔ آج کے مذہبی اجتماعات میں صاحبزادگان، آقا یان، مشائخ کرام، علامہ حضرات اور قائدین مذہب و ملت حتی استادان محتر م تک کے لئے نمایاں اور منفرد مقام بنایا جاتا ہے۔ بلکہ خود یہ افراد نمایاں اور منفرد لباس زیب تن کرکے تشریف لاتے ہیں تاکہ پہچانے جائیں یہاں تک کہ مریدوں اور چاہنے والوں کے جھرمٹ میں چلنے کا رواج بھی عام ہو گیا ہے۔

لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا یہ سیرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق ہے یاعوامی خواہش کے مطابق مقبولیت حاصل کرنے کا کوئی طریقہ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی شفقت اور دوسروں سے پیار و محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ سے کوئی ملتا تھا تو آپ اس سے اس وقت تک جدا نہیں ہوتے تھے جب تک وہ شخص خود خدا حافظ کر کے آپ کے پاس سے نہ چلا جائے۔  جب آپ کسی سے مصافحہ کرتے تھے تو مصافحہ کرنے والے کا ہاتھ اس وقت تک نہ چھوڑتے تھے جب تک وہ خود اپنا ہاتھ نہ کھینچ لے ،اور جب آپ کی مجلس میں بیٹھنے والا خود نہیں اٹھ جاتا تھا آپ نہیں اٹھتے تھے۔

انس کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ اپنے کسی صحابی کو تین دن تک نہ دیکھتے تو اس کے بارے میں پوچھتے ،اگر وہ صحابی سفر پر ہوتا تو اس کے لئے دعا فرماتے اور اگر شہر میں ہوتا تو اس سے ملنے جاتے اور اگر بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کرتے۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مریضوں کی عیادت کو جانا ایک معمول  تھا ، آپ جنازوں میں بھی شرکت فرمایا کرتے تھے ،گدھے جیسی عام سواری پر بھی سواری کر لیا کرتے تھے ،آپ جنگ خیبر ،جنگ بنی قریظہ اور جنگ بنی نضیر میں گدھے پر سوارتھے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ” خمس لا ا دعھن حتی الممات الاکل علی الحضیض مع العبید،ورکوبی الحمار موکفا،و حلبی العنزبیدی ،ولبس الصوف ،و التسلیم علی الصبیان لتکون سنۃمی بعدی “

(پانچ چیزیں ہیں جنہیں میں موت تک ترک نہیں کرسکتا تاکہ میرے بعد سنت بن جائے ، غلاموں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانا،ایسے گدھے پر سوار ہونا جس پر سادہ زین ہو، بکری کو اپنے ہاتھوں سے دوہنا، کھردرا کپڑا پہننا،اور بچوں کو سلام کرنا)۔

آج کے مذہبی معاشرے میں مذہبی راہنماؤں اور قائدین کے لئے علیحدہ دسترخوان لگوانے کا رواج عام ہے، اسی طرح بڑی بڑی گاڑیاں اور پروٹوکول سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ کتنا بڑا راہنما ہے۔ عالی شان اور منفرد قیمتی لباس مذہب کی شان سمجھی جانے لگی ہے اور ان راہنماؤں کی دست بوسی اور قدم بوسی نے سلام کی جگہ لے لی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ آپ سوار ہوں اور آپ کے ساتھ کوئی پیادہ چلے ،اگر کبھی ایسا ہوتا تو آپ اسے اپنی سواری پر سوار کر لیتے تھے ،اور اگر وہ نہیں مانتا تھا تو آپ فرماتے مجھ سے آگے نکل جاؤ اور جہان تمہیں جانا ہے وہاں مجھ سے ملاقات کرو۔

آج کے مذہبی معاشرے کو سیرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس پہلو سے موازنہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ مذہبی راہنما بڑی بڑی گاڑیوں میں سوار نظر آتےہیں جبکہ عوام ان کے ساتھ عقیدت کے اظہار کے لئے بھاگتے نظر آتے ہیں۔

آپؐ کی سیرت یہ تھی کہ جب بھی کسی سے ملتے چہرے پر لب خند ہوتا اور ان کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ آپ ہمیشہ مسکراکر بات چیت کرتے یہاں تک کہ دوستوں کی ظریفانہ محفلوں میں شریک ہوتے اور بسا اوقات ان سے لطیف مزاح بھی فرماتے۔ آج کے مذہبی معاشرے میں خشونت، رعونت اور رنجیدگی کا غلبہ ہے گویا ہم نے مسکرانا اور ہنسی مذاق کرنا اہل دنیا کے سپرد کر دیا ہے۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنے اصحاب سے مزاح اور تبسم فرمایا کرتے تھے۔حضرت جریر بن عبداللہ البجلیؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جب بھی میرا سامنا ہوتا آپ مسکراتے ہوئے ملتے تھے ۔ حضرت جابرؓ سے بھی ایسی سے ملتی جلتی روایت نقل ہوئی ہے۔

ایک شخص نے خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: مجھے کوئی سواری عطا کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: ٹھیک ہے، میں تمھیں اونٹنی کا بچہ دے دوں گا۔ اس نے کہا: میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟ آپؐ نے فرمایا : کیا کوئی ایسا اونٹ بھی ہوتا ہے جو اونٹنی کا بچہ نہ ہو؟

آپ حسب موقع و محل اخلاقی دائرہ کے اندر خواتین سے بھی مزاح فرما لیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک بزرگ خاتون آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول! میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت نصیب فرمائے۔

آپؐ نے فرمایا: بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔وہ روتی پیٹتی واپس ہونے لگیں تو آپ نے صحابہ سے فرمایا : ان کو بتادو کہ عورتیں بڑھاپے کی حالت میں جنت میں نہیں جائیں گی، بلکہ جوان ہوکر جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:إِنَّا أَنشَأْنَاہُنَّ إِنشَاء اً فَجَعَلْنَاہُنَّ أَبْکَاراً (الواقعۃ:35۔36)’’ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انھیں باکرہ بنا دیں گے۔‘‘

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب سے کچھ ارشاد فرماتے تو صحابہ ہمہ تن گوش ہوکر سنتے ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم بھی اگر کچھ بیان کرتے تو آپ بھی ان کی گفتگو میں شریک ہوتے، کوئی بات تفریح طبع کی ہوتی تو آپؐ بھی اس سے پورا مزہ لیتے، صحابہ کسی بات پر ہنستے تو آپ بھی ان کا ساتھ دیتے۔

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بسا اوقات آںحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بغیر کسی بات کے، اچانک ہنس دیتے۔ وہاں موجود صحابہ ہنسی کی وجہ دریافت کرتے، یا دریافت نہ بھی کرتے، تب بھی آپ خود ہی اس کی وضاحت فرمادیتے اور کسی ایسی حکمت کی بات کی طرف اشارہ فرماتے جو درس و تعلیم سے پُر ہوتی۔/۹۸۹/ف۹۵۴/

سید امتیاز علی رضوی

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬