تحریر: علی محمدی
امریکہ کے ایک ریپبلکن سینیٹر باب کورکر نے گذشتہ سال کہا تھا کہ جیمز میٹس، جان کلے اور ریکس ٹیلرسن کے ہمراہ ملک کو اندرونی خلفشار کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔ ریکس ٹیلرسن نے مارچ کے وسط میں وزارت خارجہ سے استعفی دے دیا اور دو ہفتے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جان کلے بھی اس سال کے آخر تک وائٹ ہاوس ممبرز اسٹاف کے سربراہ کے عہدے سے برطرف کر دیے جائیں گے۔ اس ٹیم میں سے باقی بچ جانے والے واحد فرد امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس تھے جنہوں نے حال ہی میں استعفی دے دیا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے ٹویٹر پیغام میں ان کا استعفی قبول کر لئے جانے کی خبر دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ فروری تک نئے وزیر دفاع کا اعلان کر دیا جائے گا۔ یوں باب کورکر کی پیشن گوئی ایک سال تک بھی باقی نہیں رہ سکی اور جیمز میٹس کے استعفی کے بعد یہ تین رکنی ٹیم ٹوٹ چکی ہے اور نہ صرف امریکہ بلکہ اس کے قریبی اتحادی بھی اندرونی خلفشار کا شکار ہو گئے ہیں۔
اگرچہ جیمز میٹس نے اپنے استعفی نامہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام اور افغانستان سے فوجی انخلاء کے حکم کا ذکر نہیں کیا لیکن سب اس بات پر متفق القول ہیں کہ انہوں نے اسی مسئلے پر استعفی پیش کیا ہے۔ جیمز میٹس کی جانب سے اس بات کی جانب اشارہ کہ صدر کو پنا ہم فکر وزیر دفاع رکھنے کا حق حاصل ہے، اسی دعوے کو ثابت کرتا ہے۔ درحقیقت جیمز میٹس نے وزارت دفاع کا قلمدان سنبھالتے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام سے فوجی انخلاء کی خواہش کی مخالفت کی تھی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر دفاع جیمز میٹس کے درمیان اس موضوع پر اختلاف اتنا شدید تھا کہ نیوز ویب سائٹ "پولیٹیکو"نے دو ماہ قبل اسے ان دونوں کے درمیان پائے جانے والے پانچ اہم اختلافات میں سے ایک قرار دیا تھا۔ آخرکار دونوں کے درمیان اختلاف نے اپنا کام کر دکھایا اور جیمز میٹس اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے اور یوں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شام سے فوجی انخلاء میں مزید آسانی حاصل ہو گئی۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور حتی ان کی اپنی ریپبلکن پارٹی کی نامور شخصیات اور حتی امریکہ کے یورپی اتحادی ممالک جیسے فرانس اور برطانیہ کی جانب سے بھی شدید مخالفت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے سے نہیں روک سکی۔
بعض تجزیہ کار امریکی صدر کے اس فیصلے کو ترکی کے صدر رجب طیب اردگان سے ان کی ڈیل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ مقابلے میں ترکی کے صدر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ایشو اور اس بارے میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے قصوروار ہونے پر زیادہ زور نہ دیں۔ شام سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے بعد ترکی بہت آسانی سے دریائے فرات کے مشرقی حصے میں اپنے مخالف کرد گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن انجام دے سکتا ہے۔ کرد رہنماوں نے ابھی سے ہی امریکی فوجیوں کے ممکنہ انخلاء پر اپنی شدید پریشانی کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکی فوجیوں کی عدم موجودگی میں ترکی کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے خاص طور پر جب یہ سننے میں آ رہا ہے کہ امریکہ شام سے فوجی انخلاء کے بعد اپنے ہوائی حملے بھی روک دے گا۔ درحقیقت ترکی کی جانب سے امریکی پادری اینڈرو برانسن کی آزادی کے بعد ایسی ڈیل کی توقع کی جا رہی تھی جو اب انجام پایا ہے۔
دوسری طرف امریکی صدر کی جانب سے افغانستان سے متعلق بھی مشابہہ حکم سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام سے فوجی انخلاء سے متعلق ان کے فیصلے کو محض ترکی سے ڈیل کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے میں ایسے عوامل کارفرما ہیں جن سے مجبور ہو کر انہوں نے شام اور افغانستان دونوں محاذوں پر ایک جیسا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے اس فیصلے کی زیادہ تر وجوہات امریکہ کی اندرونی صورتحال پر مبنی نظر آتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ دو سالوں کے دوران اپنے حامیوں کی حمایت برقرار رکھنے کیلئے سابق صدر براک اوباما کی پالیسیوں کی مخالفت اختیار کرنے کا ہتھکنڈہ استعمال کیا ہے اور اب وہ افغانستان اور شام سے فوجی انخلاء کے ذریعے یہی ہتھکنڈہ دوبارہ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب ہم ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک اراکین کانگریس کے درمیان میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنائے جانے کیلئے 5 ارب ڈالر کے بجٹ پر شدید اختلافات کو مدنظر قرار دیتے ہیں۔ بہت جلد ایسی نئی کانگریس اپنا کام شروع کرنے والی ہے جس میں ڈیموکریٹک اراکین کی اکثریت ہے لہذا ڈونلڈ ٹرمپ اس سے مقابلے کیلئے عوام میں اپنا پلڑا بھاری کرنا چاہتے ہیں اور اسی مقصد کیلئے انہوں نے شام اور افغانستان سے فوجی انخلاء کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام پر یہ ظاہر کر سکیں کہ امریکی فوجیوں کی جان ان کیلئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن ان کی یہ حکمت عملی امریکہ میں شدید اندرونی خلفشار کا باعث بن جائے گی۔ /۹۸۸/ ن ۹۱۴