تحریر: صابر ابو مریم
اسرائیل جو کہ ایک نسل پرست صہیونی ریاست ہے اور اس کا وجود چونکہ صہیونیوں نے بوڑھے استعمار برطانیہ کی مدد سے عالم اسلام کے قلب فلسطین پر غاصبانہ طور پر 1948ء میں قائم کیا تھا، تاہم ستر برس کے اس غاصبانہ قبضے اور تسلط کے نتیجہ میں آج بھی صہیونیوں کے اندر خوف اور شکست کا خطرہ پہلے کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے اور اس بات کا ثبوت صہیونیوں کی بڑھتی ہوئی بوکھلاہٹ، فلسطین کے علاقوں میں بڑھتے ہوئے مظالم اور خطے میں دہشت گرد گروہوں کی پیداوار سمیت ان کی مدد کرنا جیسے معاملات ہیں۔ جس کا مقصد صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ دوسری طرف صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی سرپرست ریاست امریکہ ہے، جس کا ہر حکمران اسرائیل کے تحفظ اور بقاء کو اپنے ایمان اور امریکی دستور کا کلیدی حصہ سمجھ کر صہیونیوں کے تمام جرائم کی سرپرستی کرتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ ان جرائم کی انجام دہی کے لئے اربوں ڈالرز کا اسلحہ بھی امداد کے نام پر دیا جاتا ہے جبکہ فلسطینی قوم جو کہ نہتے اور پا برہنہ ہیں، ہر طرح سے ان تمام مظالم کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس بات پر قائم ہیں کہ اپنے وطن اور سرزمین سے کسی طور پر بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔
امریکی سرپرستی میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا پہلا ہدف یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح فلسطینیوں کو فلسطین سے دستبردار کر ڈالے۔ اس کام کو انجام دینے کے لئے ماضی میں بھی فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر جبری طور پر ہجرت کروائی گئی تھی اور یوم نکبہ کو سات لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے ہی وطن سے آوارہ کرکے نکال دئیے گئے تھے، جو پڑوسی ممالک بشمول لبنان، شام، اردن اور مصر میں پناہ گزین کیمپوں میں جا کر آباد ہوئے اور آج ان کی تیسری نسل وہاں پر جوان ہو رہی ہے۔ اسرائیل گذشتہ ستر برس سے یہی کوشش کر رہا ہے کہ ظلم و جبر اور استبداد کے ذریعے ملت فلسطین کو اپنے ہی وطن اور گھر سے بے گھر کر دے اور پورے فلسطین پر قابض ہو کر اسے ناجائز اور جعلی ریاست اسرائیل کا حصہ بنا لے۔
امریکہ اور اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و ستم سمیت تمام ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے باوجود بھی فلسطینی قوم بالخصوص نوجوانوں اور بالعموم بزرگوں اور ہر طبقہ فکر کے فلسطینی باشندوں کے دلوں سے ان کے وطن کے محبت و لگن کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں، تاہم اب امریکی شیطان اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نے حالیہ دور میں نیا ہتھکنڈا جو اپنایا ہے، اس میں خطے میں موجود عرب حکمرانوں اور ریاستوں کو اسرائیل کا دوست بنانے کا کام کیا جا رہا ہے، تاکہ ان عرب بادشاہوں کی مدد سے فلسطینیوں کی باقی ماندہ زمین اور علاقوں پر شب خون مارا جاسکے۔ عرب دنیا کے حکمرانوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے، جو پہلے خفیہ تھے لیکن اب کافی حد تک اعلانیہ بھی ہوچکے ہیں۔
صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ وہ ایک ایسی زمین پر قائم ہوا ہے، جس کے باشندے اپنی زمین کو چھوڑنے پر رضامند نہیں ہیں اور ستر سالوں سے اسرائیل کے مقابلہ پر کھڑے اور مزاحمت کر رہے ہیں جبکہ اسرائیل ایسی صورتحال کے تسلسل میں خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا ہے۔ لیکن گذشتہ چند ایک سالوں اور بالخصوص گذشتہ دو برسوں میں جس طرح سے عرب دنیا کے حکمران اور اسرائیل کے مابین قربتیں بڑھنے لگی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ شاید اب صہیونیوں کا خیال ہے کہ کچھ خطرات کم ہو رہے ہیں، لیکن اس کے برعکس فلسطینی مسلسل اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ جدوجہد نہ تو کسی عرب ملک کے حاکم کے کہنے پر شروع ہوئی تھی اور نہ ہی کسی عرب ملک کے بادشاہ کے کہنے پر ختم کی جا سکتی ہے۔ فلسطین کے عوام اپنے حقوق کی بقاء اور اپنے دفاع کی جنگ اپنے حوصلہ اور جذبہ کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
گذشتہ برس کے آخری چند ماہ میں اسرائیلی حکام کی عرب حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں کافی اہم رہی اور اس بات کی دلیل ہیں کہ 1948ء کے بعد سے جس طرح سے عرب ممالک کے حکمرانوں نے اسرائیل کو ناجائز تصور کیا تھا، اب شاید اس تصور سے منحرف ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی تجزیہ نگار دورے گولڈ کے مطابق عرب اسرائیل تعلقات کی اہم پیشرفت میں گذشتہ چند ماہ میں عمان اور عرب امارات میں ہونے والے واقعات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے مطابق اسرائیلی اور عرب دنیا کے تعلقات میں ایک نئی اور گہری پیشرفت وجود میں آچکی ہے۔ اکتوبر 2018ء کے آخری دنوں میں صہیونیوں کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اچانک ہی عمان کا دورہ کیا اور اس دورے میں ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ یہ گذشتہ دو عشروں سے زیادہ عرصے میں اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات تھی۔ سلطان کے ہاں نہایت پرتکلف دعوت اور روایتی عمانی موسیقی سے تواضع کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ سلطان سے ان کی "بات چیت بہت اچھی" رہی اور یہ وعدہ بھی ہوا ہے کہ آئندہ ایسی ملاقاتیں ہوتی رہیں گی۔
صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم کی درج بالا بات بالکل درست ثابت ہوئی، کیونکہ جب اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی کابینہ کو عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے بارے میں خوش خبری سنائی تو اس موقع پر کھیلوں اور ثقافت کی اسرائیلی وزیر میری رجا متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں موجود تھیں، جہاں وہ جوڈو کے بین الاقوامی مقابلے دیکھ رہی تھیں۔ ان مقابلوں میں اسرائیل کی ایک کھلاڑی نے طلائی تمغہ جیتا تو اس موقع پر عرب امارات کے دارالحکومت میں اسرائیلی ترانہ کی دھن بھی بجائی گئی، یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ اس موقع پر صہیونی جعلی ریاست کی وزیر کھیل و ثقافت قومی ترانہ کی دھن سن کر آب دیدہ ہوگئیں۔ جزیرہ نما عرب کی سرزمین پر یہ منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ اسی طرح اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ ریلوے لائن بچھانے کی منصوبہ بندی کو بھی حتمی شکل دے چکا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا جب سرکاری سطح پر عمان یا متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات موجود ہی نہیں ہیں۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰
(جاری ہے)