رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام موسیٰ کاظم ع سے ہارون رشید نے کہا میں آپ سے کچہ سوالات کرنا چاہتا ہوں جو میرے ذہن میں ایک مدّت سے موجود ہے اور ابھی تک ان سوالوں کو کسی سے پوچہا بھی نہیں ہے، مجہ سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ کبھی بھی جہوٹ نہیں بولتے ہیں لہذا میرے جواب کو صحیح اور سچّے طریقہ سے بیان فرمایئے !۔
امام موسٰی کاظم (ع) نے فرمایا : اگر مجہے بیان کرنے کی آزادی ملے تو جو کچہ میں جانتا تمہارے سوالوں کے متعلق بیان کروں گا ۔
ہارون رشید نے کہا: آپ کو بیان کرنے کی آزادی ہے جو چاہیں آپ بیان کرسکتے ہیں !!!۔
ہارون نے سوال کیا: آپ لوگوں کا عقیدہ ہے آپ اولادِ ابوطالب ہم اولادِ عباس سے افضل و برتر ہیں؟ درحالیکہ ہم اور آپ لوگ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں ۔ ابوطالب اور عباس دونوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تہے اور رسول اسلام (ص) کی قرابت داری کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق بھی نہیں ہے ۔
امام (ع) نے فرمایا: ہم لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت تم لوگوں سے زیادہ نزدیک ہیں ۔
ہارون نے کہا وہ کس طرح ؟۔
امام (ع) نے جواب میں فرمایا: اس لئے کہ ہمارے جد ابوطالب اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد ایک ہی ماں باپ سے تہے لیکن عباس صرف ماں کے رشتہ بہائی ہوتے تہے ۔
ہاورن نے کہا میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ لوگ کیوں دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میراث پائیں گے؟ جبکہ ہم سب کو معلوم ہے جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت ہوئی ہے اس وقت ان کے چچا عباس (یعنی ہمارے جد) زندہ تہے ۔ لیکن ان کے دوسرے چچا ابوطالب (یعنی آپ کے جد) انتقال کرگئے تہے اور یہ واضح ہے کہ جب تک چچا زندہ ہیں اس وقت تک بہتیجے کو میراث نہیں ملے گی ۔
امام (ع) نے کہا: کیا مجہے بیان کرنے کی کہلی چہوٹ ہے ؟۔
ہارون نے کہا: میں نے گفتگو کے شروع ہی میں کہا ہے کہ آپ کو بیان کی کہلی چہوٹ ہے ۔
امام (ع) نے ارشاد فرمایا: حضرت علی ابن ابو طالب (ع) کا ارشاد ہے: "اولاد کے ہوتے ہوئے، ماں باپ اور بیوی و شوہر کے علاوہ کسی کو میراث نہیں ملے گی اور اولاد کے ہونے کی صورت میں چچا کے لئے قرآن اور احادیث میں بالکل کوئی میراث ثابت نہیں ہے ۔ پس جو لوگ چچا کو (میراث کے مسئلہ میں) باپ کے حکم میں قرار دیتے ہیں وہ اپنی طرف سے گڑہتے ہیں، ان کی باتوں کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ لہذا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہوتے ان کے چچا عباس کو میراث نہیں ملے گی "۔
ہارون نے کہا آپ سے ایک سوال بھی ہے کہ آپ حضرات کیوں اجازت دیتے ہیں کہ لوگ آپ کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کریں اور کہیں: اولادِ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبکہ آپ لوگ اولادِ علی (ع) میں سے ہیں ؟۔
امام (ع) نے جواب میں فرمایا: اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہوجائیں اور تمہاری لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تو کیا تم انہیں اپنی لڑکی دوگے ؟۔
ہارون نے کہا سبحان اللہ کیوں نہیں دوں گا، بلکہ میں تو اس صورت میں تمام عرب، عجم اور قریش پر فخر بھی کروں گا ۔
امام (ع) نے ارشاد فرمایا: اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہوجائیں تو میری لڑکی سے شادی کی خواستگاری نہیں کریں گے اور میں بھی انہیں اپنی لڑکی نہیں دوں گا ۔
ہاورن نے کہا اس کی وجہ کیا ہے ؟۔
امام (ع) نے فرمایا: چونکہ وہ ہمارے والد ہیں (خواہ والدہ ہی کی طرف سے) لیکن تمہارے باپ نہیں ہیں، لہذا میں اپنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرزند کہہ سکتا ہوں ۔
ہارون نے کہا آپ لوگ کیوں اپنے کو ذرّیت و اولاد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے ہیں جبکہ اولاد و ذریت لڑکے طرف سے شمار ہوتی ہے نہ کی لڑکی طرف سے ؟۔
امام (ع) نے فرمایا: مجہے اس سوال کے جواب سے معاف کرو ۔
ہارون نے کہا: نہیں، آپ جواب دیجیئے اور قرآن سے دلیل دیجئے ۔
امام (ع) نے فرمایا:
" وَ وَہبْنَا لَہ إِسحَقَ وَ يَعْقُوب كلاًّ ہدَيْنَا وَ نُوحاً ہدَيْنَا مِن قَبْلُ وَ مِن ذُرِّيَّتِہ دَاوُدَ وَ سلَيْمَنَ وَ أَيُّوب وَ يُوسف وَ مُوسي وَ ہرُونَ وَ كَذَلِك نجْزِي الْمُحْسِنِينَ وَ زَكَرِيَّا وَ يحْيي وَ عِيسي وَ إِلْيَاس كلٌّ مِّنَ الصلِحِينَ وَ إِسمَعِيلَ وَ الْيَسعَ وَ يُونُس وَ لُوطاً وَ كلاًّ فَضلْنَا عَلي الْعَلَمِينَ وَ مِنْ ءَابَائہمْ وَ ذُرِّيَّاتہمْ وَ إِخْوَانہمْ وَ اجْتَبَيْنَاہمْ وَ ہدَيْنَاہمْ إِلي صرَطٍ مُّستَقِيمٍ؛ سورہ مبارکہ انعام، آيہ شریفہ 87- 8۴۔
اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق و یعقوب دیئے اور سب کو ہدایت بھی دی اور اس کے پہلے نوح کو ہدایت دی اور پھر ابراہیم کی اولاد میں داؤد، سلیمان ایوب، یوسف، موسٰی اور ہارون قرار دیئے اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں، اور زکریا، یحیٰی، عیسیٰ اور الیاس کو بھی رکھا جو سب کے سب نیک کرداروں میں تھے، اور اسماعیل، الیسع، یونس اور لوط بھی بنائے اور سب کو عالمین سے افضل و بہتر بنایا، اور پھر ان کے باپ دادا، اولاد اور برادری میں سے اور خود انہیں بھی منتخب کیا اور سب کو سیدھے راستہ کی ہدایت کردی ۔
اس وقت میں تم سے پوچھتا ہوں کہ اس آیت میں عیسیٰ (ع) کو جناب ابراہم علیہ السلام کی ذریت و اولاد میں شمار کیا گیا ہے کیا وہ باپ کی طرف سے منسوب ہیں یا ماں کی طرف سے ؟۔
ہارون نے کہا: قرآن کے ثبوت کے مطابق حضرت عیسیٰ (ع) کا کوئی باپ نہیں تھا ۔
امام (ع) نے فرمایا: پھر وہ ماں کی طرف سے اولاد میں شمار کئے گئے ہیں لہذا ہم بھی اپنی ماں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذرّیت میں شمار ہوتے ہیں ۔
کیا دوسری آیت بھی تمہارے لئے پڑھوں ؟ ۔
ہارون نے کہا پڑھئے !۔
امام (ع) نے فرمایا : " فَمَنْ حَآجَّکَ فِیہ مِن بَعْدِ مَا جَاءکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَ أَبْنَاءکُمْ وَ نِسَاءنَا وَ نِسَاءکُمْ وَ أَنفُسَنَا و أَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَھلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّہ عَلَی الْکَاذِبِینَ؛ سورہ مبارکہ آل عمران، آيہ شریفہ ۶1۔
پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ۔
کسی شخص نے بھی دعویٰ نہیں کیا ہے کہ پیغمبر (ص) نے نصارائے نجران سے مباہلہ میں على و فاطمہ و حسن و حسين علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کو مباہلہ میں اپنے ساتھ لے گئے ہوں، لہذا ابنائنا (اپنے بیٹوں) کے مصداق آیت میں حسن و حسين (علیہما السلام) ہیں، اس کے باوجود کہ یہ حضرات ماں کی طرف سے پیغمبر (ص) سے منسوب ہیں ۔
عيون اخبار الرضا،ج 1، ص 81، طبع قم؛ احتجاج طبرسى، طبع سنگى نجف، ص 211- 213؛ بحار الانوار، ج ۴8، ص 129- 12۵۔
/۹۸۹/ف