حجت الاسلام سید حمید الحسن زیدی
رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کو امریکہ اور سوویت روس نے اپنے ایک غیر معمولی اور نادر مفاہمت نامے کے تحت فلسطینی سرزمین کی دو عرب اور یہودی حصوں میں تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد کیا اور اقوام متحدہ سے کہا کہ اس منصوبے کو منظور کرلے؛ جس نے عالم اسلام میں غصے اور نفرت کی لہر دوڑا دی اور سابق سوویت روس اور صہیونیوں کے خلاف بیت المقدس، یافا، حیفا اور فلسطین کے کئی دوسرے شہروں اور کئی اسلامی ممالک میں خونی مظاہرے ہوئے۔
غاصب اسرائیل کے قیام کا با قاعدہ اعلان:
مورخہ ۸ دسمبر ۱۹۴۷ کو عرب لیگ نے ایک نشست میں اقوام متحدہ کے خائنانہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے یہودی صہیونیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ فیصلے کئے۔ سنہ ۱۹۴۸ میں مصری طیاروں نے ابتداء میں اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کو بمباری کا نشانہ بنایا اور لبنان کی بکتر بند یونٹوں نے شمال سے، شام اور اردن نے مشرق اور مصر نے مغرب سے فلسطین کی طرف عزیمت کی۔
ابتدائی دنوں میں اردن کی افواج نے بیت المقدس کے ایک بڑے حصے کو یہودی قبضے سے آزاد کرایا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دیکھا کہ جنگ یہودی غاصبوں کے نقصان میں ہے، تو اس نے ۲ جون ۱۹۴۸ کو ـ جبکہ جنگ کے آغاز سے ۱۹ دن گذر رہے تھے ـ جنگ بندی کی اپیل کی۔ یہودیوں نے اس جنگ بندی سے فائدہ اٹھایا اور امریکہ اور چیکوسلواکیہ کی مدد سے اپنے فوجی دستوں کو کیل کانٹے سے لیس کیا اور اسی سال ماہ ستمبر میں ـ یعنی صرف تین ماہ بعد ـ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا اور فلسطین کے اندر “ہاگانا” یا “یہودی حملہ آور اور دفاعی فوج” نے علاقہ “عکا” پر حملہ کیا جہاں حیفا اور دوسرے عرب علاقوں کے ہزاروں عربوں نے پناہ لی تھی اوران پر زبردست فائرنگ کی۔ اور بعدازاں ہاگانہ کے ساتویں بریگیڈ نے گھمسان کی لڑائی کے بعد شہر “ناصرہ” پر قبضہ کرلیا اور مصر کی طرف پیشقدمی کا آغاز کیا۔
دوسری جنگ میں عرب افواج مشترکہ کمان اور ہماہنگی نہ ہونے کے باعث استقامت نہ دکھا سکے جس کے نتیجے میں اسلامی سرزمینوں کا ۶۰۰۰ کلومیٹر کا رقبہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا اور یہ جنگ اقوام متحدہ کی مداخلت سے اختتام پذیر ہوئی۔
۱۹۴۹ ء بہار کے موسم میں اسرائیل نے مصر، لبنان، ماورائے اردن اور شام کے ساتھ الگ الگ مذاکرات کرکے اختتام جنگ کے مفاہمت ناموں پر دستخط کئے۔ لیکن یہ مفاہمت نامے بھی دیرپا ثابت نہ ہوئے اور اسرائیلی ریاست کے حملے وقتا فوقتا جاری رہے۔ اسی سال غاصب یہودی ریاست نے فلسطین کے ۴۰۰ شہروں اور دیہاتوں کو ویراں کردیا اور ویرانوں پر مصنوعی جنگل کاری کا اہتمام کیا۔
چنانچہ اس جنگ میں ۱۰ لاکھ فلسطینی بےگھر ہوکر عرب ممالک میں پناہ گزین ہوئے اور فریقین کے ہزاروں سپاہی ہلاک اور زخمی ہوئے اور یہودی فلسطین کے ۷۸ فیصد حصے پر مسلط ہوئے۔ دوسری طرف سے دنیا بھر سے یہودیوں کی فلسطین آمد میں اضافہ ہوا اور یہ سلسلہ ۱۹۵۱ میں اپنے عروج کو پہنچا۔
جنگ اور فلسطینیوں کے قتل اور ان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں نیز اپنی آبائی سرزمینوں سے ان کے مسلسل فرار کے نتیجے میں فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ معرض وجود میں آیا اور یہ مسئلہ ۱۹۶۷ کی ۶ روزہ عرب ـ اسرائیل جنگ کا سبب بنا۔
اس جنگ میں اعراب کی شکست کے بعد فلسطینیوں کی طرف سے چھاپامار لڑائی شروع ہوئی جسے۱۹۷۰ ء میں اسرائیلی حملوں کے نتیجہ میں فلسطین کے باہر سیریہ اور لبنان منتقل ہو نا پڑ ا ۱۹۸۷ء میں مصر نے خیانت کر تے ہوئے اسرائیل سے ساز باز کر لی اور اس طرح بظاہر اسرائیل کو کسی بڑے دشمن کا سامنا نہیں رہ گیا اس کے بعد روز بروز عربوں کے ذریعہ اسرائیل سے مقابلہ کی کیفیت ، خیانت یا سستی کا شکار ہوتی چلی گئی جس کے نتیجہ میں وقتا ً فوقتا اسرائیل کی ظالم حکومت کے ذریعہ نہتھے فلسطینی عوام منجملہ عورتوں اور بچوں کو قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رہا لاکھوں بے گناہ ا مارے گئے یا آوارہ وطنی کی زندگی بسر کر نے پر مجبور ہوگئے ۔
عالم اسلام کی عالمانہ قیادت اور اسرائیل کی بوکھلا ہٹ:
اعراب کی سست ہوتی ہوئی سیاست اور عرب ممالک کے ذلت آمیز رویے نے اسرائیل کے حوصلہ بلند کر رکھے تھے اور پوری اسلامی دنیا پر اپنی حکومت کے خواب دیکھنے لگے کہ امام خمینی ؒ کی رہبری میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے اسرائیل منصوبہ پر پانی پھیر دیا امام خمینی ؒ نے اسرائیل سفارتخانہ بند کر کے فلسطین سفارتخانہ قائم کیا اور انقلاب کی کامیابی کے ایک سال کے اندر ہی ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس اور غاصب اسرائیل کے خلاف احتجاج کا دن قرار دیا اس وقت سے لیکر آج تک ہر سال ماہ مبارک رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطین اور بیت المقدس سے کی آزادی کے لئے احتجاج کر تے ہیں جس نے غاصب اسرائیل کی نیند اڑا رکھی ہے ۔
ہر سال کا یہ احتجاج اسے یہ احساس دلانے کے لئے کافی ہے کہ اسرائیل کی حکومت غاصبانہ ہے اور یہ سر زمین اس کی اپنی نہیں ہے اپنی ڈوبتی نائو دیکھ کر اسرائیل کے سب سے بڑی حامی امریکہ نے عربوں پر اپنا شکنجہ تیز کر تے ہو ئے اپنے اپنے جارحانہ اقدامات میں ان کی حمایت حاصل کر لی ۔ اور علی الاعلان مسلمانوں کے قبلہ اول کو اسرائیل دار الحکومت قرار دینے کا اعلان کیا جس میں پوری دنیا کے آزاد ضمیر ممالک منجملہ عزیز وطن ہندوستان نے امیریکہ کی مخالفت کی لیکن ضمیر فروش سعودی حکمرانوں نے اپنے آقا کی خوشنودی کے لئے اس کے اس اقدام کے سامنے بھی کتوں کی طرح دم ہلاکر اپنی حمایت کا اعلان کر دیا ۔
جس کے نتیجہ میں دنیا دیکھ رہی ہے کے اسرائیل کے مسلح افواج کس طرح نہتھے بچوں اور عورتوں پر گولہ باری کر کے انکا خون بہا رہی ہیں حال ہی میں ایک انتہائی فعال جوان خاتون ڈاکٹر جو فلسطینی زخمیوں کی طبی امداد میں نمایاںکر دار ادا کر تی تھی انتہائی بے دردی سے گولیوں کو نشانہ بنی ہم ماہ مبارک رمضان کے اس آخری جمعہ میں امریکہ ، اسرائیل اور تمام دنیا کے ظالموں سے اظہار برأت اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدرددی کر تے ہیں خدا سلامت رکھے رہبر معظم آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای اور رہبر مقاومت اسلامی حضرت حجۃ الاسلام والمسلمین آقائے حسن نصر اللہ کو جن کی مدبرانہ سیاست ،فعالیت ، سوجھ بوجھ ،اور سر براہی میں ملت مسلمہ کا سر اونچا اور ظلم و جور کو ذلیل و رسوا کر رکھا ہے ۔
امید ہے جلد ہی اسرائیل کی نا بودی اور فلسطین کی آزادی کا مژدہ امام عصر (عج)کے ظہور کی خوش خبری کے ساتھ امت اسلامی کے لئے حقیقی عید کا پیغام لائے گا اور یہود کی طرح سعود بھی ذلت و رسوائی کے اپنا تباہ کن انجام دیکھیں گے ۔