15 June 2019 - 13:40
News ID: 440598
فونت
آج قبر زہراؐ کی گمشدگی آپ کے عقیدتمندوں کے لئے ایک ناقابل تحمل درد کا احساس ہے ۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اس حقیقت سے  کسی طرح بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نبی اکرمؐ نے اپنی ۶۳ سالہ حیات برکت میں جس طرح کے آزار و اذیت کا نشانہ بن کر انسانیت کو جس پستی اور ذلت سے نجات دی تھی اس کے نتیجہ میں آپ کی آل پاک کو امت مسلمہ کے سرکا تاج ہوناچائیے تھا لیکن افسوس نبی اکرمؐ کی وفات کے فوراً بعد آپ کی اکلوتی دختر حضرت فاطمہ زہراؐ جنہیں نبی اکرمؐ نے اپنا جزء قرار دیا تھا جن کی تعظیم کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ جاتے تھے، جنہیں ام ابیہا کے لقب سے نوازا تھا، امت مسلمہ نے انہیں نہ صرف یہ کہ وہ احترام نہیں دیا جس کی وہ حقدار تھیں بلکہ انہیں یکسر نظر انداز کردیا ، شہزادی کونینؐ ان کے شوہر نامدار، مدافع اسلام، علی مرتضیٰؑ اور ان کے دونوں شہزادوں کے ساتھ امت مسلمہ نے جو برتاؤ کیا وہ تاریخ اسلام کےجگر کا ناسور ہے۔

نبی اکرم کی وفات کے بعد  آپ کے دروازہ پر آگ اور لکڑیوں کا اکٹھا ہونا، پہلوئے مبارک کا شکستہ کیا جانا ۱۸؍برس کے سن میں عصا کے سہارے چلنا ۷۵یا۹۵ دن مسلسل گریہ کرنا وہ مصائب و آلام میں جن پر ہر درد مند دل قیامت تک آنسو بہاتا رہے گا لیکن ان سب سے عظیم مصیبت اس دریگانہ کی یادگار قبر مطہر کا معلوم نہ ہونا ہے۔ امت مسلمہ کے نام نہاد سربراہوں کے مظالم سے تنگ آکر آپ نے تنہائی میں جنازہ اٹھانے کی وصیت فرمائی تھی جنازہ رات کی تاریکی میں اٹھ گیا اور قبر مطہر مصلحت الٰہی کے پردہ میں گم ہوگئی جس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ دنیا کے مظالم کا سلسلہ رکنے والانہیں تھا۔

شاید قدرت کو معلوم تھا کہ ایسا دور بھی آئے گا جب ظلم و ستم کی انتہا ہوگی جہاں قبریں بھی ظالموں کے ظلم سے محفوظ نہ رہیں گی۔ جیسا کہ وہابی دہشت گردوں نے ۱۳۴۴ھ؁ میں جنت البقیع کے قبے منہدم کر کے اس نئے ظلم و ستم کی بنا ڈالی اور پھر داعشی دہشت گردوں نے حجر بن عدی کی قبر مبارک کو کھود کر اس ظلم و ستم کی عمارت میں آخر ی کیل ٹھونک دی جس سے کم از کم قبر زہراؐ پر مصلحت الٰہی کے پردہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ کسی امر مقدس کی حفاظت کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اپنی مصلحتوں کے پردہ میں چھپا لیتا ہے۔ وہ چاہے شہیدہ شہزادی کونینؐ کی قبر مطہر ہو یا ان کے لال زمانے کے امامؑ کی حیات بابرکت۔ آج قبر زہراؐ کی گمشدگی آپ کے عقیدتمندوں کے لئے ایک ناقابل تحمل درد کا احساس ہے ۔

کاش دریگانہ نبوت کی قبر مطہر پر ایک عالیشان روضہ تعمیر ہوتا اور خاندان رسول و آل رسولؐ سے عقیدت رکھنے والے پروانہ وار اس کے گرد چکر لگا کر عقیدتوں کے پھول نچھاور کرتے اور اپنا دامن مراد بھرتے لیکن فسق و فجور اور کفرونفاق نے اسلام کے نام پر یہ گوہر گرانبہا ہماری نگاہوں سے اوجھل کردیا اور بقیع کے روضے مسمار کرکے فرزندان زہرا کی قبروں کو ویران کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی آج مایوسی غربت اور بے کسی جنت البقیع کی داستان الم کو بیان کرتے ہوئے قبر زہراؐ کی گمشدگی کا مرثیہ پڑھ رہی ہے۔ اور ظالموں سے انتقام لینے والے غیب میں موجود امام کی بارگاہ میں استغاثہ کر رہی ہے ۔ مولاآپ آئیں ہماری مایوسیوں کی شام ہو مقامات مقدسہ خاص طور پر مکہ مدینہ کی رونقیں واپس آئیں جنت البقیع پر عالیشان روضے تعمیر ہوں اور قبر صدیقہ طاہرہ جو پوری صالح امت اسلامیہ کا گوہر گمشدہ ہے اسے واپس مل جائے ، ظلم و ستم کی شام ہو مظلومیت کو اس کا حق مل جائے، اور پوری دنیا میں امن و امان قائم ہو۔

قبروں پر تعمیر کا شرعی حکم

پیغمبر اسلامؐ کے دور سے لے کر ابن تیمیہ (متوفی ۷۰۸ھ) اور ان کے شاگرد ابن قیم (متوفی ۷۵۱ھ)تک تقریباً سات سو پچاس برس ہو گئے تھے اور اس پوری مدت میں مسلمانوں کے درمیان ان کے شرعی مسائل میں قبروں پر عمارت تعمیر کرنے کے نام پر کسی طرح کا اختلاف، جھگڑا، بحث اور جذبات کو بھڑکانے یا انہیں نظرانداز کرنے کی بات نہیں تھی یہاں تک کہ ابن تیمیہ نے اپنے دور میں قبروں پر عمارت تعمیر کرنے کے عدم جواز کا فتویٰ دے دیا۔

اس نے یہ اعلان کیا کہ ائمہ اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبروں پر روضے تعمیر کرنا جائز نہیں ہے اور انہیں مسجد قرار دینا یا وہاں نماز ادا کرنا شرعی نہیں ہے اس کے بعد ابن قیم جوزی کا دور آیا۔ اس نے اس سے آگے بھی بیان دیا اور کہا کہ قبروں پر جو روضے بنے ہیں ان کا گرانا واجب ہے اور ان کے گرانے اور انہیں ختم کرنے پر قدرت حاصل ہوجانے کے بعد ایک دن کے لئے بھی ان کا باقی رکھنا جائز نہیں ہے۔

اس کے بعد محمد ابن عبد الوہاب (متوفی ۱۲۰۶ھ)آیا اور اس نے مذہب و فقہ میں سختی اور زبردستی کو داخل کیا جس کی بنیاد دوسروں کو کافر ثابت کرنے، ان پر شرک کا الزام لگا کر ان کا خون مباح کرنے، ان کی آل و اولاد کو اسیر کرنے جیسی سزائیں معین کیں ہر اس شخص کے لئے جو اس کی نظر میں تکفیر کے اسباب میں سے کسی سبب کا مرتکب ہو۔ یہاں تک کہ اس نے یہ سزائیں ان افراد تک کے لئے بھی معین کیں جو دوسروں کو کافر قرار دینے کے نظرئیے میں ذرہ برابر بھی اس کی مخالفت کرتے ہوں۔

درعیہ کے حاکم سعود کی حمایت نے محمد ابن عبد الوہاب کے افکار و نظریات کی نشر و اشاعت اور اس کے اتبدائی اقتدار کو ہماہنگ کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں اس نے مختلف مناطق پر حملہ کرکے اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کی۔

اس وقت سے لے کر آج تک قبروں پر روضے تعمیر کرنے کا مسئلہ وہابیوں کی جانب سے تمام مسلمانوں پر طنز و تشنیع کے لئے سب سے نمایاں اور اہم سبب بن گیا۔ قبروں پر عمارتوں کی تعمیر کے نظریہ کی مخالفت کو ایسی تلوار قرار دیا گیا جو کفراور شرک کا اتہام ثابت کرنے کے لئے استعمال ہو۔ ا س کے نتیجے میں مسلمانوں میں شدید اختلاف پیدا ہوا اور اتحاد اسلامی جیسی عظیم نعمت خطرہ میں پڑ گئی۔

اس مسئلہ کی اہمیت اور اس سلسلہ میں شدید حساسیت کی بنا پر ضرورت محسوس ہوئی کہ اس موضوع کا مختلف اعتبارات سے مطالعہ کیا جائے اور پھر اس سلسلہ میں کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے۔ اس بحث سے ہمارا مقصد صرف حقیقت کو بیان کرنا ہے تاکہ مسلمانوں میں آپسی اختلافات اور اس کے سنگین نتائج کے خطرہ کو کم کرکے ان میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کی جائے اور ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے غلط نتائج سے بچکر  ان کی دیرینہ عظمت و شوکت کو واپس لایا جائے۔

قبروں کی تعمیر اور انکے احترام کا مسئلہ قرآن کی روشنی میں

جب ہم نے قرآن مجید کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس مسئلہ کے بارے میں قرآنی نظریہ سے واقف ہونے کی کوشش کی تو بہت سی آیات ایسی دکھائی دیں جو اس مسئلہ میں قرآنی موقف کی جانب واضح اشارہ کرتی ہوئی نظر آئیں جیسے خداوند عالم کا ارشاد ہے:

وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْہِمْ لِيَعْلَمُوْٓا اَنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَيْبَ فِيْہَا۝۰ۚۤ اِذْ يَتَنَازَعُوْنَ بَيْنَہُمْ اَمْرَہُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَيْہِمْ بُنْيَانًا۝۰ۭ رَبُّہُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ۝۰ۭ قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓي اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْہِمْ مَّسْجِدًا. (سورۂ کہف؍۲۱)

’’اور اس طرح ہم نے قوم کو ان کے حالات پر مطلع کردیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچاّ ہے اور قیامت میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے جب یہ لوگ آپس میں ان کے بارے میں جھگڑا کررہے تھے اور یہ طے کررہے تھے کہ ان کے غار پر ایک عمارت بنادی جائے۔خدا ان کے بارے میں بہتر جانتا ہے اور جو لوگ دوسروں کی رائے پر غالب آئے انہوں نے کہا کہ ہم ان پر مسجد بنائیں گے۔‘‘

اس آیت سے استدلال کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں اصحاب کہف کے قصہ کی طرف اشارہ کیا گیا جب ان کے حالات اور ان کی جگہ سے لوگ واقف ہوئے تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم اس پر عمارت بنائیں گے اور بعض نے کہا کہ ہم اس پر مسجد بنائیں گے۔ آیت کا سیاق (تسلسل) ثابت کرتا ہے کہ پہلی والی گفتگو یعنی عمارت بنانے کا نظریہ کفار کا تھا اور دوسری گفتگو توحید پرستوں سے متعلق تھی اور آیت نے بلا کسی ناپسندیدگی اور انکار کے دونوں نظرئیے اور اقوال پیش کئے۔

اگر ان دونوں نظریوں میں ذرہ برابرکوئی بھی غلط اور باطل چیز ہوتی تو آیۂ کریمہ میں اس کی طرف اشارہ کیا جاتا اور کسی بھی قرینہ سے اس کے باطل ہونے کو ثابت کیا جاتا۔ قرآن مجید کی آیت میں دونوں اقوال کی تائید اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شریعت اسلامی میں یہ دونوں اقوال اور نظریات قابل قبول ہیں بلکہ آیت میں توحید پرستوں کے اقوال کو جس سیاق میں پیش کیا گیا ہے اس سے اس فعل کی مدح و ثنا کی کیفیت کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔

مشرکین کے قول میں بظاہر شک و شبہ پایا جاتا ہے جب کہ توحید پرستوں کے یہاں یقین اور قاطعیت سے ’لنتخذن‘ (ہم ضرور بنائیں گے) ان کی ایمانی بصیرت کی ترجمانی ہے۔ وہ لوگ صرف عمارت بنانا نہیں چاہتے بلکہ مسجد بنانا چاہتے ہیں۔ اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وہ افراد تھے جو خدا کی معرفت رکھتے تھے اور اس کی عبادت اور اس کی قربت کے لئے نماز کے قائل تھے۔

فخر رازی ’لنتخذن علیہ مسجداً‘ (ہم اس پر مسجد بنائیں گے)کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ہم اس پر اللہ کی عبادت کریں گے اور اس مسجد کے وسیلے سے اصحاب کہف کے آثار کو باقی رکھیں گے۔

شوکانی کا کہنا ہے کہ مسجد قرار دینے کے قول سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ مسلمان تھے جب کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ لوگ مذکورہ قوم کے حکام و سلاطین تھے اور وہ لوگ اپنے مخالفین پر غالب آئے تھے۔ پہلا والانظریہ زیادہ بہتر ہے۔

زجاجی کا بیان ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب اصحاب کہف کے واقعہ کی حقیقت سامنے آئی۔ اس وقت مومنین کو غلبہ حاصل ہوچکا تھا۔ اس لئے کہ مسجدیں مومنوں سے مخصوص ہوتی ہیں۔

یہاں پر اگر صرف ہم ہوں اور آیۂ کریمہ تو اس سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ آیۂ کریمہ  ان نیک اور صالح ذوات مقدسہ کی قبروں پر تعمیر اور مسجد کو روا بلکہ قابل مدح سمجھتی ہے جن کا مرتبہ اور شان بلند و بالا ہو اس لئے کہ وہ قرآن کریم کی خاص توجہ اور اس کی مدح و ثنا کا مرکز قرار پائے ہیں اور کتاب خدا میں ان کے ذکر سے یہ نتیجہ نکالاجاسکتا ہے کہ ان کی قبروں کے پاس نماز جائز ہے اور اس پر مساجد اور روضے تعمیر ہو سکتے ہیں۔

بلا شک و تردید یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انبیائے کرام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی شان و منزلت ان نیک اور صالح جوانوں (اصحاب کہف) سے بھی زیادہ بلند و بالا ہے۔ جب اصحاب کہف کی قبروں کے پاس نماز جائز ہو سکتی ہے اور اس پر عمارت تعمیر ہو سکتی ہے تو انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے قبور مطہرہ پر بدرجۂ اولیٰ عمارت تعمیر ہو سکتی ہے اور اسے مسجد و عبادت گاہ بنایا جاسکتا ہے۔

تحریر : حجت الاسلام سید حمید الحسن زیدی

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬