سید تقی رضوی
ملک و بیرون ملک میں رہنے والا کون شخص ہے جو اس بات کو نہیں جانتا کہ ہندوستان جیسے امن پسند عظیم ملک میں امن و خیر سگالی، محبت و یکجہتی کے کچھ بھگوادھاری شر پسند عناصر دھرم کے نام پر اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو نیست و نابود کر کے لوگوں کے دلوں میں محبت وبھائی چارگی کے بجائے نفرت و عداوت کے جذبات پیدا کررہے ہیں۔
جس کا منہ بولتا ثبوت پارلمان میں’’جے شری رام‘‘ اور ’’وندے ماترم‘‘ وغیرہ کی گونج ہے! اس گونج میں ملک کے بے قصور تبریز انصاری جیسے درجنوں بےگناہ مسلم جوان و نو جوانوں کی آہیں ، سیسکیاں اور چیخیں دب کررہ گئیں اور شدت پسند دھرم کے ٹھیکداروں نے بے گناہوں پر پھاڑ کھانے والے درندے کی طرح حملہ کر نا شروع کردیا!
پانچ برس پہلے مندر و مسجد اور گئوکشی کے نام پر نفرت اور ہجومی تشدد کی آگ بھڑکی اور پھر عداوتوں کے لپکتے ہوئے شعلوں نے سینکڑوں اور ہزاروں گھرو خاندان کو خاکستر کردیا! اور اب ’’جےشری رام‘‘ اور ’’جےہنومان‘‘ جیسے نعرے ہیں اور انتہا پسندوں کا قہر و غضب ہے۔۔۔
بربادمحبت کی حالت ہےعجب حالت
ہے بے سر و سامانی سامان محبت کا
تبریز انصاری کے ہمراہ امسال کا یہ درجنوں دلخراش واقعہ ہے کہ کسی بے قصور سے جبراً جے شری رام اور جے ہنومان کہلوایا اور زد و کوب کیا جا رہا ہے اور ملک کا اعلیٰ طبقہ خاموش ہے!
ہرقدم پہ ناکامی....
ہر قدم پہ محرومی ہے.... ہر طرف سناٹا ہی سناٹا ہے.....
اگر ان واقعات کو بدقت دیکھا جائے تو ہر صاحب فہم کے لئے یہ واضح ہو جائے گا کہ ان فتنوں میں فرقہ پرست سیاسی جماعتیں براہ راست شامل ہیں اگر نہیں بھی شامل ہیں تو پھر ’’رام جی‘‘ کے نام پر سماج میں شر پھیلانے والوں کو ان کی پشت پناہی حاصل ہے۔جو ملک کے آئین واصول، سیکورلزم، امن و رواداری، خیر سگالی اور سماجی ہم آہنگی پر ایک بدنما داغ ہے۔
یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ ’’رام اور ’’راماین‘‘ کے آدرشوں کو بھلا کر بھید بھاؤ کی سیاست کرنے میں مصروف سیاست دانوں کی تشدّد آمیز فطرت راکھشسی مزاج کی علامت ہے۔
ملک کے اقتدار پر قابض اور سیاسی کرسی پر براجمان رہنے والے لوگ درحقیقت ذات ، پات اور دھرم کےنام پر لوگوں کو بانٹ رہے اور انہیں دھوکہ دے رہیں۔ اور جےشری رام کے پبترسلوگن کو سیاسی ہتھیار بنا کر اس کے غلط استعمال سے شدت پسندوں کو مل رہا ہےحوصلہ اور ملک بھر میں ہو رہے ہیں موب لنچنگ کے دردناک واقعات اور مارے جارہے ہیں بے قصور لوگ...!
سچ اگرپوچھئیے!تو’’رام‘‘نےلوگوں کواہنسااورامن وشانتی کادرس دیاتھااوراُن لوگوں کیلئےبھی وہ پھول تھےجوان کےراستےمیں کانٹےبچھایاکرتےتھےلیکن آج!ہمارے سماج میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے لئے عیاں ہے ۔
یہ بات ہرپڑھا لکھا انسان جانتا ہے کہ جس ملک کے حکمران ذاتی فائدوں کےلیے اپنا ضمیربیچ دیتے ہیں ذلت ورسوائی ان کےعوام کا مقدر بن جاتی ہے۔
آج!دنیا ہم پر ہنس رہی ہے ۔
آج! پوری انسانیت شرمندہ وشرمسارہے۔
آج!ملک بھرمیں پھیلی نفرت وعداوت،نسل پرستی اورفرقہ واریت کی وبا کے خلاف انسانیت کی مشترکہ آواز کو سننا ضروری ہوگیا ہے۔
اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ مار کھانے والے ، ظلم و تشدد اور بہیمیت کا شکار بے قصور طبقہ بولنے اور لڑنے کی قدرت سے محروم ہے، ایسا احمقانہ تصوربالکل بھی نہ کیاجائے ! امن پسند لوگ نفرتوں کی آندھیوں میں رہ کر بھی ہمیشہ الفت و ہمدردی کی شمع جلا تے اور ظلم سہہ کر بھی اپنے دلوں میں ملک و سماج کی حسرتِ تعمیر لئے پھرتے ہیں ...،
یہ ایسے دین کے ماننے والے ہیں جوہمیشہ ہر حال میں سماج اور سماج کے لوگوں کو جوڑنے کی بات کرتا ہے توڑنےکا درس نہیں دیتا !
یہ ایسے دین کے ماننے والے ہیں جس کا اولین مقصد ہی تحفظ انسانیت ہے۔انسانی ہمدردی اورشرفِ انسانیت کا جواعلی وارفع معیاراس دین نے پیش کیا ہے وہ کسی اور مذاہبِ عالم میں نظر نہیں آتا....
مگرافسوس بقول شاعر !
تونے دیکھا ہی نہیں فطرتِ اسلام کا رنگ
ہم نفس ! دین محمدؐ ہے محبت کا نظام
ایک دستور کہ آدم ہے عظیم
ایک قانون کہ انسان ہے اخلاق کا نام
امن، اخلاق ، محبت ، رہِ تسلیم و رضا
دین اسلام نے آدم کو یہ پیغام دیا
آج!پوری دنیا میں انسان اورانسانیت کی تذلیل ہورہی ہےکہیں بھوک کہیں غربت وافلاس کہیں مہنگائی، کہیں قحط،کہیں لوٹ مارکہیں کرپشن،کہیں قتل وغارتگری، کہیں تجاوزوعصمت دری توکہیں جنگ وخونریزی ہے جو انسان اور شرفِ انسانیت کونگلی چلی جارہی ہےاورعیش عشرت میں غرق بدعنوان کرپٹ برادری تماشائی بنی ہوئی ہےجیسے کہ وہ انسان ہی نہیں!
توقیر اندھیروں کی بڑھا دی گئی شاید
اک شمع جو روشن تھی بجھا دی گئی شاید
اسلام’’سلامتی‘‘ کوکہتے ہیں ۔ ایسی سلامتی جس میں آپ کے ہاتھ اورزبان سےدوسرے لوگ محفوظ ہوں۔
یہ محض ایک عبادت کا مذہب نہیں بلکہ یہ ایک جامع نظام ہے ہے بنی نوع انسان کے ہر شعبہ ٔ حیات پر مشتمل ایک مکمل نظام ہے اسلام آشتی کا، فتنہ و فساد سے نجات اور لڑائی جھگڑے سے اجتناب کاہے۔
اسلام رواداری کا نام ہے،اسلام برداشت اور بردباری کا نام ہے، اسلام عدل و مساوات ،حسنِ خیالات نام ہے ،اسلام احترامِ جذبات اور تحفظِ ذات کانام ہے۔
اس مقدس دین کا وجود محبت و آشتی کےبطن سےہی ہے،یہ تمام اَقوام اورمعاشروں کو اَمن اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے اورتمام بنی نوع اِنسان کےلیےباہمی اُخوت ومحبت،تعظیم وتکریم اورباہمی عدل واِنصاف کی تلقین بھی کرتا ہے۔اسی میں حقوق اللہ کے بعدحقوق العباد اور سماج میں امن و آشتی،باہمی تعلقات،مہر و مروّت، محبت وفا، آپسی رواداری...کا اتنا واضح تصور موجود ہےکہ دیگر ادیانِ عالم تاقیام قیامت ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہےگی۔
دنیا میں یہ واحد ایسا مذہب ہےجو بقائے باہمی، تحمل و برداشت اور بین المذاہب رواداری کا علمبردار ہے۔
یہ تمام اقوام عالم کو تعظیم انسان ،تحفظ و تکریمِ اِنسانیت اور عدمِ تشدد اور نفرتوں کو محبتوں سےختم کرنے کا درس دیتا ہے۔
اسی سے مجھ کو ملا اشتیاق منزل کا
مرے سفر کو فضائے سفر اسی سے ملی
اس دور پر آشوب میں ہندوستان جیسے ملک میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں امن و آشتی اور ایک دوسرے سے مہر و محبت کی اشد ضرورت ہے۔
اگر دنیا اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائے تو ملک و سماج میں لگی نفرتوں کی آگ ختم ہوسکتی ہے اور پورا ملک و سماج امن و محبت کا گہوارہ بن سکتا ہے...