رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی کہتے ہیںکہ پاکستانی قیادت کا دورئہ امریکہ کامیاب نظر آرہا ہے، البتہ ہمیں بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ٹرمپ کی جانب سے جن جذبات کا اظہار کیاگیا ہے وہ صرف بیانات تک ہی محدود ہونگے یا عملی جامہ بھی پہنایا جائےگا۔
اس وقت پاکستان کو امریکہ کی نہیں بلکہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے، ہمیں بھی اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا، برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کی پالیسی بہترین البتہ اس کا عملی مظاہرہ بھی نظر آتا رہنا چاہیے، ہمیں خطے کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی کو نئے خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔
حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ کچھ عرصہ قبل امریکہ کے پاکستان کے حوالے سے متضاد اور ہمیشہ بدلتے ہوئے موقف پر کہا تھا کہ ”قربان برم خدارا، یک بام دو ہوا را“ کیونکہ ہمیشہ امریکہ کا پاکستان کے حوالے سے دہرا رویہ اور معیار رہاہے، ہمیں بھی آنکھیں بند کرکے ان کی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے اور پھر ایسے حالات میں جب خود امریکی میڈیا کہتا ہو کہ صدر ٹرمپ دن میں 20مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں ۔
انہوں نے وضاحت کی: موجودہ افغان صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو امریکہ کی نہیں بلکہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے، ہمیں بھی اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے ماضی کی کمپرومائز پالیسی سے نکل سے آزاد و خود مختار پالیسی کے تحت اسی برابری کی سطح پر بات مثبت عمل ہے جس کا اظہار خود وزیراعظم نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا لیکن اگر صرف یہ بات شہ سرخیوں کےلئے کی جائےگی تو اس سے ملک کا فائدہ نہیں ہوگا۔
ہمیں خطے کی صورتحال کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، حالیہ عالمی بدلتے منظر نامہ میں پاکستان کی اہمیت مزید بڑھ رہی ہے ، ایسے میں ہماری ذمہ داریاں مزید بڑھ رہی ہیں ۔ ہمارے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے تجربات بہت تلخ ہیں اس لئے انہیں ضرور ملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ جمہوری پراسیس کے ذریعے شکلیں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں ، ہمیں امریکہ ان پالیسیوں کوتبدیل کرتے ہوئے اپنی لابی کو مضبوط بنانا ہوگا ۔
علامہ سید ساجد علی نقوی کا کہنا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ60کی دہائی سے اب تک پاکستان کو صرف تھپکیاں جبکہ انڈیا کو سٹرٹیجک تعاون فراہم کیا جاتا رہاہے وہ پاکستان کے ساتھ گاجر اور چھڑی والا بچکانہ کھیل کھیلا جاتا رہا۔
انکا مزید کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کےلئے جہاں مختلف چیلنجز سامنے آرہے ہیں وہیں بہت سے ثمرات سمیٹنے کے مواقع بھی میسر آرہے ہیں ہمیں دور اندیشی اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے یہ ثمرات سمیٹنے کے ساتھ بین الاقوامی سازشوں سے خبردار بھی رہنا ہوگا اور ان سازشوںکا تدارک بھی کرنا ہوگا۔