رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مظفرنگر، میرٹھ، کانپور، لکھنو اور بجنور میں پولیس اور سنگھی دہشت گردوں کی دل دہلا دینے والی داستانیں پڑھ کر، سن کر اور دیکھ کر کوئی بھی با آسانی یہ اندازہ لگا سکتا ہے یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ طویل عرصے سے اس کی تیاری کی جا رہی تھی، بس موقع کا انتظار تھا اور سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہروں نے انہیں یہ موقع فراہم کر دیا۔
مظفرنگر میں واقع شیعہ مسلمانوں کے مدرسے میں زیر تعلیم طلبہ کا کہنا ہے کہ ملک میں جیسے ہی سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے، پولیس کے لباس میں ایک شخص تحقیقات کے بہانے مدرسے پہنچا اور اس نے وہاں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی لوکیش لی اور پرنسپل کے بارے میں اطلاع جمع کی۔
اس کے بعد، جمعے کو درجنوں پولیس اہلکاروں نے مدرسے میں گھس کر طلبہ کو بے رحمی سے مارا پیٹا اور پرنسپل مولانا اسد رضا سمیت درجنوں طلبہ کو حراست میں لے لیا۔
مولانا رضا کو جب پولیس نے رہا کیا تو ان کے ہاتھوں اور پیروں میں کئی جگہ فریکچر تھے، یہی حال مدرسے سے حراست میں لئے گئے درجن سے زائد چھوٹے طلبہ کا بھی ہے۔
پرنسپل حوزہ علمیہ حضرت امام حسین(ع) حجت الاسلام و المسلمین سید اسد رضا صاحب مظفر نگر
مسلمان گھرانے میں گھسکر یوپی پولیس کی لوٹ مار کا منظر