تحریر : سید نجیب الحسن زیدی
چاروں طرف سے لوگ لاٹھی اور ڈنڈے ہاتھوں میں لئے ایک خاص سمت دوڑ رہے تھے، کوئی کہہ رہا تھا مارو، کوئی مار رہا تھا کوئی گالی دے رہا تھا تو کوئی کہہ رہا تھا ارے بہت ہو گیا اب جانے دو ۔۔۔۔۔
اتنے میں سائرن بجاتی پولیس کی گاڑی پہنچ گئی ، اور آٹھ دس پولیس والے ہاتھوں میں ڈنڈے لہراتے ہوئے دھم سے اپنی گاڑی سے اترے اور پھر لاٹھیاں برسنے لگیں ،میں نے سوچا چلو ان دنگائیوں سے نجات ملے گی پلیس دیر سے ہی سہی پہنچ تو گئی لیکن تعجب کی انتہا نہ رہی جب یہ دیکھا کہ پولیس کی لاٹھیوں کے نشانے پرکچھ عورتیں تھیں اور *انکے درمیان ایک ایسی عورت بھی تھی جسکی گود میں ایک بچہ تھا وہ کبھی خود کو بچاتی کبھی بچے کو سنبھالتی لاٹھیاں کھا رہی تھی ۔
میں نے دیکھا اسکے ساتھ بیٹھی عورتیں جیسے تیسے ادھر ادھر بھاگ گئیں تھیں جب کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی تھی اسکا سر پھٹ چکا تھا اسکا چارسال کا بچہ اسکے رخساروں پر ہاتھ پھیر پھیر کراسے اٹھانے کی کوشش کررہا تھا کبھی و ہ اپنی ماں کے ہاتھوں کو چومتا کبھی پیشانی کو اوراسکے رخساروں پر اپنا سر رکھ دیتا لیکن وہ بے سدھ پڑی تھی اور پولیس والے اپنے موبائل سے فوٹو لے رہے تھے اتنے میں کسی بھلے آدمی نے ایمبولنس کو فون کر دیا ایمبولنس اسے اٹھا کر ہاسپٹل لے گئی۔
ڈاکٹرز کی ٹیم نے بہت جانفشانیوں سے کام کیا اور پورے ۲۴ گھنٹوں کے بعد اسے ہوش آیا ، جیسےہی ہوش آیا فورا پولیس اندر داخل ہوئی ڈاکٹرز سے تو تو میں میں ہوئی ،میں اپنا ٹوٹا کیمرہ لئے دیکھ رہا تھا کہ ڈاکٹرز اسے لے جانے کو منع کر رہےتھے اسکی حالت ایسی نہیں تھی کہ اسپتال سے باہر جائے لیکن پولیس نہیں مانی اور کہا یہ وطن سے غداری کا معاملہ ہے اسے فوراکورٹ میں حاضر ہونا ہے،غداری کا معاملہ سامنے آتے ہی ڈاکٹرز خاموش ہو گئے کہ ملک سے غداری کا الزام ہر چیز پر بھاری ہے ۔
کورٹ میں جج صاحب آ چکے تھے سب انکے احترام میں کھڑے ہوگئے نیم بے ہوشی کی حالت میں اس عورت کو کٹگھرے میں بہ مشکل تمام کھڑا کیا گیا، اور سرکاری وکیل نے اسکے خلاف لگنے والے الزامات کو پڑھ کر سنایا وہ سر جھکائے سنتی رہی اسکی مٹھیاں بند تھیں پوری طاقت سے اس نےاپنی دونوں مٹھیوں کوبھینچا ہوا تھا ۔
جج نے وکیل کی بات سننے کے بعد اس سے کہا آپ کیا صفائی دینا چاہیں گی ؟اس نے کہا کچھ بھی نہیں آپ مجھے پھانسی کی سزا دے دیں بس میری یہی درخواست ہے۔ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے میرے حق میں انصاف یہی ہوگا ۔
جج نے وقت بتا کر پوچھا کہ فلاں وقت پر کیا تم جعفرآباد کے فلاں علاقےمیں نہیں موجود تھیں؟ اس نے جواب دیا بالکل تھی ۔
جج نے کہا تمہارے ساتھ کچھ اور بھی عورتیں تھیں اس نے کہا ہاں تین چارمیری رشتہ دار تھیں لیکن جب لاٹھی چارج ہوا تو سب تتر بتر ہو گئیں۔
جج نے فیصلہ سنانے کے لئے قلم اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ آخر تم جس سر زمین پر رہتی ہو اسکی عزت کا بھی خیال نہیں کیا ایسا کیوں کیا؟ غیر قانونی طور پرتم نے سڑک پر قبضہ جمانے کی کوشش کیوں کی اس سے فساد بھڑک سکتا تھا۔۔۔ ؟
*اس دکھیا عورت نے جو جواب دیا اسکے بعد جج صاحب کا قلم انکے ہاتھوں سے ہی گرگیا۔
سر کیسا قبضہ میں تو پولیس کی گولی سے نشانہ بننے والے اپنے بیٹے کی موت کی اس جگہ پھول لے کر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ پہنچی تھی جہاں اس نے بے بسی سے دم توڑا تھا یہ دیکھیں میری مٹھی میں اب بھی اسکی جگہ کی خاک ہے۔
جہاں میرے کڑیل جوان نے پولیس کی گولی کھانے کے بعد زخمی حالت میں دنگائیوں کی لاٹھیاں کھا کر دم توڑا تھا ۔
کورٹ میں ہر طرف سناٹا تھا کچھ مردہ ضمیر تھے جن پر لاٹھیاں برس رہی تھیں لیکن و ہ بے حس و ساکت تھے اس لئیے کہ وہ مردہ تھے۔
بند مٹھی کی خاک سب کے سامنے تھی جس سے ہندوستان کے شہیدوں کی بو آ رہی تھی لیکن خاکی وردی پر اسکا کوئی اثر نہ تھا۔ ہر طرف سناٹاتھا میں باہر نکلا میں نے دیکھا عدالت کی عمارت کے اوپر ترنگا آب و تاب کے ساتھ لہرارہا تھااور ہوا کے دوش پڑ اڑتی ہوئی خاکِ وطن اسکے سراپے کو چوم رہی تھی اس ترنگے کے سراپے میں نہ جانے کتنی مائیں تھیں جو اپنی مٹھی بند کئے عدالت میں اپنی پیشی کا انتظار کر رہی تھیں۔