09 May 2020 - 17:38
News ID: 442679
فونت
ہمارے بارہ اماموں میں جتنے بھی امام ہیں سب علم و فضل و کمال کے لحاظ سے بے نظیرو بے مثیل ہیں، دنیا کے ہر میدان میں اور ہر لحاظ سے یہ سب سے منفرد اور جدا ہیں ،چاہے وہ علم کا میدان ہو یا شجاعت  و شرافت اور کرامت کا میدان ہو ۔

تحریر: حجت الاسلام سید ظفر عباس رضوی (قم المقدسہ ایران)   

ہمارےبارہ اماموں میں جتنےبھی امام ہیں سب علم وفضل وکمال کے لحاظ سے بے نظیروبے مثیل ہیں ،دنیا کے ہر میدان میں اور ہر لحاظ سے یہ سب سے منفرد اور جدا ہیں ،چاہےوہ  علم کا میدان ہو یاشجاعت  وشرافت اورکرامت کامیدان ہو ،جو بھی ہو سب میں یہ سب سے زیادہ باکمال اور باشرف ہیں ، جتنے بھی   کمالات  اور فضائل ہیں سب انہیں کی ذات کے اوپر  منتہی  ہوتے ہیں ۔ ان کے با کمال اور باشرف ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ دوست کے ساتھ ساتھ دشمن بھی  ان کے فضائل و مناقب کا اعتراف کرتے ہیں اور شدید دشمنی کے باوجودبھی  یہ کہنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ واقعا یہ صاحب فضائل وکمالات ہیں اور تعریف تواسی وقت حقیقی تعریف کہلاتی ہے جب انسان کے دشمن اس کی تعریف کریں  ۔ ہمارےجتنے بھی امام ہیں سب کا یہی حال ہے ، جب ہم تاریخ کے اوراق پہ نظرڈالیں گے    اور پڑھیں گے تو ہم کو پتہ چلے گا کہ کتنے بڑے بڑے اورجانی  دشمن ان کی شخصیت کا لوہا مانتے ہیں ، اور یہ تھے بھی ایسے ہی کہ دوست کے ساتھ ساتھ دشمن بھی ان کی تعریف کرنےپہ مجبور ہوجائیں ،جتنے بھی امام ہیں سب فضائل وکمالات کے اعتبار سے برابر ہیں لیکن ان میں بھی  کچھ القاب ایسے ہیں جو بعض سے مخصوص ہیں  آج جیسےہی ہمارے سامنے امیرالمومنین کا لقب بولاجاتاہے ہمارا ذہن فور ا حضرت علی علیہ السلام کی طرف جا تاہے اسی طریقہ سے جیسے ہی سید الشہداء کا لقب بولاجاتاہے تو  فورا ہم امام حسین علیہ السلام کو سمجھتے ہیں اسی طریقہ سے اور دوسرے القاب جیسےہی ہمارے سامنے بولےجاتےہیں ہم سمجھ جاتے ہیں کہ کس امام کےبارے میں کہا جارہا ہے ، انہیں القاب میں سے ایک لقب کریم اہل بیت ؑہے، جیسےہی ہمارے سامنے یہ لقب بولاجاتاہے توہم امام حسن مجتبی علیہ السلام کو سمجھتےہیں ، ہمارے سارے امام کریم ہیں لیکن یہ لقب ہمارے دوسرے امام سے مخصوص ہے آپ کی کرامت ،شرافت اور فضیلت کا اندازاہ اسی سےلگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو کریم اہل بیتؑ کہا جاتاہے ۔ آپ کی فضیلت کے لئے پیغمبر اکرم (ص)کا یہی  قو ل کافی ہے کہ آپ نے فرمایا "اگر فضیلت اور بزرگی انسانی شکل میں ہو تی تو امام حسن علیہ السلام ہوتے[1]" ۔گویا کہ امام حسن علیہ السلام سراپا اورمجسمہ فضیلت ہیں ۔                                                               

امام   حسن ؑ اورشباہت پیغمبر اعظم (ص)  ۔                     

  انس ابن مالک نے نقل کیا ہے کہ:" امام حسن علیہ السلام سے زیادہ کوئی پیغمبر اکرم (ص)سے مشابہ نہیں تھا [2]"۔       

رسول خدا نے امام حسن علیہ السلام سے فرمایا :"تم خلقت اور اخلاق دونوں لحاظ سے مجھ سے مشابہ ہو [3]

امام علی علیہ السلام سے روایت ہے  کہ :" حسن بن علی لوگوں میں سب سے زیادہ   پیغمبر اعظم (ص)سے مشابہ  ہیں  سر سے لیکے سینہ تک اور حسین سینے سے اس کے نیچے تک[4] " ۔

جناب زہر اسلام اللہ  علیہا  نے امام حسن علیہ السلام کے لئے فرمایا :" یہ پیغمبر اکرم (ص)سے مشابہ ہیں علی علیہ السلام سے مشابہ نہیں ہیں  [5]"

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ :" جو پیغمبر اکرم (ص)کی زیارت کرنا چاہتاہے اسے چاہیئے کہ اس بچہ کو دیکھ لے [6] "یعنی امام حسن علیہ السلام کو"

شیخ مفید نے ارشاد میں  لکھا ہے  کہ :" امام حسن علیہ السلام خلقت ،سیرت اور  سیادت کے لحاظ سے سب سے زیادہ پیغمبر اکرم (ص)سے مشابہ تھے [7] "۔    

تواگر کوئی امام حسن علیہ السلام کی سیرت سمجھنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے پیغمبر اعظم (ص)کی سیرت پر نگاہ کرنا پڑ ے گا اور دقت کے ساتھ مطالعہ کرناپڑےگا تب جا کے امام حسن علیہ السلام کی سیرت سمجھ میں آئےگی جیسےجیسے لوگوں کو پیغمبر اعظم (ص)کی سیرت سمجھ میں آتی جائے گی امام حسن علیہ السلام کی سیرت خود بخود سمجھ میں آجائےگی امام حسن علیہ السلام کی فضیلت اور شرف کے لئے یہی کا فی ہے کی آ   پ ہر لحاظ سے  پیغمبر اکرم (ص)سے مشابہ ہیں ۔

امام حسنؑ اور کرامت ۔

"امام حسن ؑ حاجت مندوں اور دردمندوں کے لئے   بہت ہی مہربان تھے ان کے ساتھ بیٹھتے تھے اوران کے درد دل کو دل و جان سے سنتے تھے اور ان کی مشکلات کو دور کرتے تھے  یہ کام فقط خد اکے لئے انجام دیتے  تھے ۔ کوئی بھی فقیر اور مسکین ان کے گھر سے نا امید ہو کے نہیں پلٹتا تھا یہاں تک کہ آپ خود فقراء کو تلاش کرتے تھے اور ان کو اپنے گھر لے کے آتے تھے   ا نھیں کھانااور لباس دیتےتھے [8]

"ایک مرتبہ امام  علیہ السلام سے پوچھاگیا کہ  آپ کسی سائل کو کبھی نا امید نہیں پلٹاتے  ۔ آپ نے فرمایا کہ میں بھی خداوند عالم کی بارگاہ کا سائل ہوں اور میں  ڈرتاہوں کہ اگرکسی سائل کو واپس کردوں تو خدا مجھے  بھی خالی ہاتھ وا پس نہ کردے خدا وند عالم نے میرے اوپر عنایت کی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میں بھی لوگوں کی مدد کروں [9] "

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :"  امام حسن مجتبی ؑ نے  تین بار اپنے  پورے مال کو راہ خدا میں انفاق کیا یہاں تک کہ اپنے جوتے،لباس اور دینار کو بھی[10] " ۔

قیراونی نے نقل کیاہے کہ :"امام حسن ؑ  بخشنے والے اور کریم تھے کسی بھی سوال کرنے والے کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے تھے اور کبھی بھی کسی امیدوار کو مایوس نہیں کرتے تھے [11]

امام حسن ؑاور عزت   

"ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کے اندر کبروتکبر دیکھ رہاہوں آپ نے فرمایا تما م کبر اللہ کے لئے ہے لیکن میرے اندر عزت ہے[12] "۔ اور خدا نے فرمایا " عزت خدااس کے رسول اور صاحبان ایمان کے لئے ہے[13] "

واصل ابن عطا نے امام حسن علیہ السلام کے لئے کہا کہ :" حسن ابن علی ؑکے اندر انبیاء کی علامتیں  اور بادشاہوں کی شان وشوکت تھی [14]"

محمد ابن اسحاق نے نقل کیا ہے کہ :"پیغمبر اکرم (ص)کے بعد امام حسن علیہ السلام کا جومقام اورشرف تھا و ہ کسی کا نہیں تھا آپ کے دروازہ پہ ایک فرش بچھادیا جا تا تھا  جب آپ باہر آتے تھے اور وہاں بیٹھتے تھے تو راستہ بند ہو جاتا تھا جو بھی وہاں سے گزرنا چاہتا تھا  آپ کے احترام میں رک جاتاتھا جب آپ یہ دیکھتے تھے اور سمجھ جاتے تھے کہ راستہ آنے جانے کے لئے بند ہو گیا ہے تو آپ گھر میں چلے جاتے تھے اور لوگ راستہ چلنے لگتے تھے [15] " ۔

 

امام حسنؑ اور عبادت ۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ :"حسن بن علی بن ابی طالبؑ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عبادت گزار، زاہد اور بافضیلت تھے [16] "

ایک دوسری جگہ پہ آپ نے فرمایا :" امام حسنؑ کو کبھی اور  کسی بھی حالت میں نہیں دیکھا گیا مگر یہ کہ ذکر خد ا کیا کرتے تھے [17] "

امام حسن ؑ اور صداقت وفصاحت ۔

امام زین العابدین ؑنے فرمایا:" امام حسنؑ سب سے زیادہ سچے اور سب سے زیادہ فصیح تھے  [18] "

واقعا اگر ہم غور کریں اور امام حسنؑ کی زندگی کا دقت سے مطالعہ کریں تو ہم کو پتہ چلے گا کہ امام ؑ کتنے کمالات و فضائل کے حامل تھے ۔ امامؑ کی زندگی کا ہر پہلو  ہمارے لئے درس اور عبرت ہے ،کس طریقہ سے آپؑ فقراء اور مساکین کی مددکرتے تھے ا ور کتنا خیال رکھتے تھے ایسے ہی نہیں آپ کو کریم اہل بیتؑ کہاجاتا ہے ۔ آج اگر ہم مولاکی سیرت پہ عمل کرنے لگیں تو فقراءاور مساکین کی حالت بہتر ہو جائے گی ۔  اور ہر رہبر اور قائد کا فریضہ ہے بلکہ ہر انسان کا فریضہ ہے کہ وہ اسی طریقہ سے فقراء اور مساکین کا خیا ل کرے اور اسی اخلاق کا مظاہرہ  کرے تاکہ لوگ  دیکھتے ہی سمجھ جائیں کہ یہ کریم اہل بیت ؑ کا ماننے والاہے ۔ آج ہم اگر حقیقی اور واقعی طور پہ امام ؑکی سیرت پہ عمل کرنے لگیں تو زندگی کے کسی بھی موڑپہ ناکام نہیں رہ سکتے ہیں ۔ اور آج ضرورت ہے اس بات کی امام حسن ؑ کی حقیقی زندگی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ امام حسن ؑکی حقیقی زندگی کیا ہے،چاہے آپ کی اخلاقی زندگی ہو ، سیاسی زندگی ہو ، گھریلو زندگی ہو یا سماجی اور معاشرتی زندگی ہو ،ضرورت ہے کہ دنیا والوں کے سامنے ایسی پاک وپاکیزہ زندگی کا تذکرہ کیا جائے جس کی آج دینا والوں کو ضرورت ہے اور ایسی زندگی محمد وآل محمد ؑکے علاوہ کسی اور کی نہیں ہو سکتی ہے جو ہر عیب اور برائی سے پاک ہو ۔اور جنھوں نے دنیا والوں کو زندگی جینے کا سلیقہ بھی بتادیا ہو یہ اور بات ہےکہ ان ہستیوں سے کس نے کتنا فائدہ اٹھایا اور اٹھا رہا ہے ۔

آخرمیں   خدا وند عالم سے یہی دعا ہے کہ خد ا  محمدﷺوآل محمد علیہم السلام کے صدقہ  میں  ہمیں توفیق عنایت فرمائےکہ ہم  کریم اہل بیت امام حسن ؑکے نقش قدم پہ چل سکیں   تاکہ ہمارا بھی شمار امام کے حقیقی چاہنے والوں میں ہو   سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 حوالہ:                                                  

[1] ۔ مئہ منقبہ من مناقب امیر المومنین والاائمہ ۔ ص ، ۱۳۶،ناشر مدرسہ الامام المہدی ، قم

[2] ۔ حلیہ الابرارفی احوال محمدوآلہ الاطہار علیہم السلام ، ج، ۴،ص، ۷۰

[3] ۔ سفینہ البحار ، ج، ۴، ص، ۳۷۶، ناشر، اسوہ ، قم

[4] ۔ ؛کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ ، ج،۱ ، ص، ۵۴۶۔ ناشر بنی ہاشم ، تبریز

[5]۔ عوامل العلوم والمعارف والاحوال ، ج،۱۱، ص، ۸۹۸ ، ناشر موسسہ الامام المہدی قم

[6] ۔ طرف من الانباء والمنارب ، ص، ۴۹۴، ناشر تاسوعہ ، مشہد

[7] ۔ الارشاد فی معرفہ حجج اللہ علی العباد ، ج۲، ص، ۵ ، ناشر، کنگرہ شیخ مفید ، قم

[8] ۔ حقائق پنہان، ص، ۲۶۶، ناشر ۔ دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ ،قم

[9] ۔ حقائق پنہان ، ص، ۲۶۸،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[10] ۔ تہذیب الاحکام ، ج، ۵،ص، ۱۱،ناشر دار الکتب الاسلامیہ ، تہران

[11] ۔ مسند الامام المجتبی ، ص، ۱۳۴،ناشر۔ انتشارات عطارد

[12] ۔ بحارالانوار ،ج،۳۴، ص، ۳۲۵، ناشر۔ داراحیاء التراث العربی  بیروت ۔ لبنان

[13] ۔ سورہ منافقون، ۸۔

[14] ۔ بحارالانوار ، ج، ۴۳، ص ،۳۳۸۔۳۳۹ ، ناشر، موسسہ الوفاء بیروت

[15] ۔ مناقب ، ج،۴،ص ، ۷، ناشر۔ علامہ ، قم

[16] ۔ بحارالانوار، ج، ۴۳  ، ص،۳۳۱،ناشر۔ موسسہ الوفاء ۔ بیروت

[17] ۔ امالی صدوق ، ص، ۱۷۹،ناشر۔ کتابچی تہران

[18] ۔ بحارالانوار،ج، ۴۳،ص، ۳۳۱،ناشر۔ موسسہ الوفاء ۔ بیروت

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬