رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت الله عبدالله جوادی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں اپنے تفسیر کے درس میں سورہ مبارکہ احزاب کی آخری آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا : سورہ مبارکہ احزاب کی 72 آیہ میں امر یعنی حکم کے سلسلہ میں گفت و گو نہیں ہوئی ہے بلکہ گفت و گو پیشکش کرنا ہے ، یہ پیشکش کرنا کبھی کسی کام کے سلسلہ میں راستہ رکھانا ہے اور کبھی ایک طرح کی دھمکی ہے ، یہاں فرمایا ہے «عرضنا» اس معنی میں ہے کہ کون اس وزن کو اٹھائے گا ۔
انہوں نے آیہ «إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَن یَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ کَانَ ظَلُومًا جَهُولًا» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی : میں نے آسمانوں اور زمین اور اس کے اہل ، جن اور اس کے اہل کو پیشکش کی ہے کہ اس وزن کو کون اٹھا سکتا ہے ، یہ آیت صرف آسمان ، زمین اور پہاڑوں کو شامل نہیں کرتا بلکہ اس سے مراد تمام مخلوقی نظام ہے کہ میں نے جس کو پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ کون اس کو حمل کر سکتا ہے اور سب اس میں موجود تھے ۔
قرآن مجید کے مشہور مفسر نے بیان کیا : تمام مخلوق نے اس سلسلہ میں غور و خوض کیا اور اس نتیجہ پر پہوچے کہ ان کی قدرت سے باہر ہے ، فرشتے اور انسان اس کو نہیں حمل کر سکتے ، انسان نے دیکھا کہ وہ اس کو حمل کر سکتا ہے اور قبول بھی کر لیا ، انسانوں میں سے بعض نے اس امانت کو محفوظ نہیں رکھا ، تو بعض نے اس امانت کو سستے میں نیلام کر دیا اور بعض لوگوں نے اس امانت کو صحیح سالم اس کے حقدار تک پہوچایا کہ قرآن کریم اس تسلسل میں مشرکین ، منافقین اور مومنین کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔