رسا نیوز ایجنسی کا قائد انقلاب اسلامی کی خبر رساں سائیٹ سے منقولہ رپورٹ کے مطابق حضرت امام خمینی (رہ ) کے حرم میں آج ان کی چوبیسویں برسی کی مناسبت سے ملک بھر سے لاکھوں مؤمن اور انقلابی عوام کا عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا اور ایرانی عوام نے ایک بار پھر رہبر کبیر انقلاب اسلامی کے ساتھ اپنی وفاداری، باہمی اتحاد و یکجہتی ، قوم و حکام کی سرافرازی کا شاندار نمونہ پیش کیا اور اپنے مرحوم اور عزیز رہنما کے ساتھ ایک بار پھر تجدید عہد کیا۔
قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے اس عظیم الشان اور بے مثال اجتماع سے خطاب میں حضرت امام خمینی (رہ) کے اللہ تعالی، عوام اور خود اعتمادی پرگہرے اعتقاد و یقین کو انقلاب اسلامی کی کامیابی ، استمرار اور مقتدرانہ پیشرفت کا باعث قراردیا اور انتخابات کے سلسلے میں صدارتی امیدواروں اور عوام کو اہم سفارشات کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے ایرانی قوم آئندہ دس دنوں میں ولولہ انگیز رزم و جہاد کا مظاہرہ کرےگی اور 24 خرداد مطابق 14 جون کے امتحان میں سرافراز ، سربلند اور کامیاب ہوجائےگی۔
قائد انقلاب اسلامی نے 15 خرداد سن 1342 ہجری شمسی کے عوامی قیام کو ایران کی تاریخ میں بہت ہی اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی 13 خرداد 1343 ہجری شمسی میں تقریر اور پھر ان کی حراست کے بعد تہران، قم اور ملک کے بعض دیگر شہروں میں عظیم عوامی موج اور لہر پیدا ہوگئی اورعوام نے ستمشاہی حکومت کے سامنے علماء اور مراجع کے ساتھ اپنے گہرے رابطے کا شاندار نمونہ پیش کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام اور علماء کے باہمی رابطے کو عوامی تحریک کی پیشرفت اور سرانجام تحریک کی کامیابی کا ضامن قراردیتے ہوئے فرمایا:جب عوام میدان میں وارد ہوتے ہیں اور ان کے احساسات ، جذبات اور افکار کسی تحریک کی پشتپناہی کرتے ہیں تو وہ تحریک جاری رہتے ہوئےکامیابی سے ہمکنار ہوجاتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے 15 خرداد سن 1342 ہجری شمسی کے واقعہ میں طاغوت کے ظلم و ستم اور اس کی بےرحمی و سنگدلی کے نمایاں ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس واقعہ پر عالمی اداروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی اہم نکات میں شامل تھی عالمی اداروں نے اس واقعہ کے بارے میں کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ان تمام مشکلات اور مسائل کے باوجود حضرت امام خمینی (رہ) عوام کے تعاون اور پشتپناہی سے ایک عظیم معنوی ، آسمانی، تاریخی اور عالمی راہنما بن گئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے تین اہم اعتقادات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی پر اعتقاد، عوام پر اعتقاد اور اپنے عزم و ارادے پر اعتقاد ، یہ تینوں اعتقاد امام خمینی (رہ) کے اندر واقعی معنی میں موجود تھے ان کے تمام فیصلوں اور ارادوں یہ تینوں اعتقادات نمایاں طور پرموجود تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) اپنے دل کی گہرائی سے عوام کے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور عوام بھی ان کی بات پر دل و جان سے لبیک کہتے تھے،میدان میں حاضر ہوتے تھے اور استقامت و پائداری کا مظاہرہ کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ تحریک بتدریج کامیابی کی طرف بڑھی اور سرانجام کسی ملک کی مدد اور تعاون کے بغیر کامیابی سے ہمکنار ہوگئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے اللہ تعالی پر اعتقاد، عوام پر اعتقاد اور خود اعتمادی کی تینوں قسموں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کا اللہ تعالی پر مضبوط اور مستحکم اعتقاد اور انھیں اللہ تعالی کے وعدوں پر مکمل یقین تھا لہذا اسی لئے وہ ہرکام اور ہر قدم صرف اور صرف اللہ تعالی کے لئے اٹھاتے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کا قوم پر بھی گہرا اعتقاد اور اعتماد تھا اور ان کا اس بات پر یقین تھا کہ اگر ایرانی قوم کو لائق اور شائستہ رہنما مل جائیں تو وہ سورج کے مانند ہر میدان میں درخشاں رہے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی ںظر میں قوم سب سے زیادہ عزیز تھی اور قوم کے دشمن سب سے زیادہ منفور تھے اور یہ اعتقاد و یقین ان سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں استقامت و پائداری کا بنیادی سبب تھا جو ایرانی قوم کے ساتھ دشمنی رکھتی تھیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی تیسری خصوصیت خود اعتماد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) نے " ہم کرسکتے ہیں" کے نعرے کو عوام کے اندر زندہ کیا اور قوم کے اندر موجود ذاتی صلاحیتوں اور توانائیوں کو مختلف میدانوں میں نمایاں اور اجاگرکیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے پہلوی ظالم و ستمگرحکومت ، انقلاب و دفاع مقدس کے دوران اور عالمی ستمگر طاقتوں کے مقابلے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی شجاعانہ رفتارکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شجاعت، قاطعیت اورخود اعتمادی کی خصوصیات حضرت امام خمینی (رہ) کی رفتار ،گفتار اور فیصلوں میں نمایاں طور پرموجود تھیں جو بتدریج قوم میں منتقل ہوئیں جنھوں نے اس قوم کو استقامت ، پائداری اور بصیرت کے نمونہ میں تبدیل کردیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسی خوداعتمادی اور شجاعت کے نتیجے میں حضرت امام خمینی (رہ) اپنی پربرکت زندگی کے آخری لمحات تک ذرہ برابر افسردہ خاطر نہیں ہوئے اور حضرت امام خمینی (رہ) کی زندگی کے آخری بیانات تحریک کے اوائل کے بیانات سے قوی تر اور مضبوط تر تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی(رہ) کے نعرے " ہم کرسکتے ہیں" پر قوم کے اعتماد کے نتائج کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نے خود اعتمادی ، اللہ تعالی پر توکل اور امید کے سائے میں ستمشاہی دور کی مایوسی اور ناامیدی کو دور کردیا اور قوم نے مختلف میدانوں میں قابل فخر ترقیات کے ذریعہ خود کو پیشرفت اور سربلندی کی علامت میں تبدیل کردیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکہ و برطانیہ سے ایران کی شرم آور وابستگی سے نجات، خیانتکار، شہوت انگیز اور فاسد حکمرانوں کی جگہ قومی نمائندوں کے انتخاب، ایران کو پسماندہ ممالک کی صف سے نکال کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے اور ایران کی سائنسی، طبی، اور تعمیری شعبوں میں قابل تعریف اور قابل قدرترقیات کو اس عظیم تحریک کے برکات قراردیا جس تحریک کوحضرت امام خمینی (رہ) نے اللہ تعالی پر اعتقاد، عوام پر اعتماد اور خوداعتمادی کی بدولت عوام کے اندر پیدا کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے حالیہ تین عشروں میں حاصل ہونے والی ترقیات پر غرور نہ کرنے کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم اپنے آپ کو طاغوتی دور کے ایران سے موازنہ کریں تو یہ افتخارات مشاہدہ ہوں گے لیکن اگر ہم مطلوب اسلامی ایران سے موازنہ کریں تو یقینی طور پر ابھی ہمیں عزت ، اخلاق، معنویت اور ایمان والے ایران تک پہنچنے کے لئے طویل راستہ طے کرنا باقی ہے جو مطلوب اسلامی ایران ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کے انہی تین اعتقادات کی روشنی میں یہ طویل راستہ طے کیا جاسکتا ہے اور ایرانی قوم اپنے جوانوں کی توانائیوں اور حضرت امام خمینی (رہ) کے ان تین اعتقادات کی بدولت مطلوب اسلامی ایران کی بلند و بالا چوٹیوں تک پہنچنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے مستقبل کو امید افزا قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے پاس روڈ میپ بھی موجود ہے جو حضرت امام خمینی (رہ) کے اصولوں پر مشتمل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا:حضرت امام خمینی (رہ) کے اصول ان کی تقریروں اور وصیت نامہ میں تدوین شدہ طور پر موجود ہیں یہ وہی اصول ہیں جن کی بدولت ایران کی پسماندہ قوم، پیشرفتہ ،ترقی یافتہ ، سربلند اور مستقل قوم میں تبدیل ہوگئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایک نکتہ کی یادآوری کرتے ہوئے فرمایا: جو لوگ حضرت امام خمینی (رہ) کا نام زبان پر لاتے ہیں اور ان کے نام سے تمسک کرتے ہیں انھیں امام خمینی (رہ) کے اصولوں اور ان کے روڈ میپ پر بھی اعتقاد اور توجہ کرنی چاہیے کیونکہ حضرت امام (رہ) کی حقیقت کا ادراک صرف ان کے اصولوں اور روڈ میپ پر عمل کرنے کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مختلف شعبوں بالخصوص اندرونی سیاست کے بارے میں حضرت امام خمینی (رہ) کے اصول کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: عوام کی آراء پر تکیہ، قوم میں باہمی اتحاد و یکجہتی، حکمرانوں کے عوامی ہونے اور اشرافی گری سے دور رہنے، قومی مفادات پر حکام کی توجہ اور ملک کی ہمہ گیر ترقی و پیشرفت کے لئے تلاش و کوشش امام (رہ) کے اصول میں شامل ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے خارجہ پالیسی کے بارے میں حضرت امام خمینی (رہ) کے اصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تسلط پسند طاقتوں کی پالیسیوں کے مقابلے میں استقامت،مسلمان قوموں کے ساتھ اخوت و برادری،ایرانی قوم کے دشمن ممالک کے علاوہ باقی تمام ممالک کے ساتھ مساوی روابط ،فلسطین کی آزادی کے لئے تلاش و کوشش، اسرائیل کے ساتھ مقابلہ، ظالموں کے مقابلے میں مظلوموں کی حمایت حضرت امام خمینی (رہ) کی خارجہ پالیسی کے اصولوں میں شامل ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ثقافت کے بارے میں بھی حضرت امام (رہ) کی پالیسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مغربی مالک کی غلط ثقافت سے دوری، تحجر و جمود سے دوری، دین سے تمسک کے سلسلے میں ریا کاری سے دوری،اسلامی اخلاق و احکام کا بھر پور دفاع اور معاشرے میں فساد و فحشا کو فروغ دینے والوں کے ساتھ مقابلہ ایسے امور ہیں جو حضرت امام (رہ) کے ثقافتی اصولوں میں شامل ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اقتصاد کے بارے میں حضرت امام خمینی(رہ) کے اصول و مؤقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قومی اقتصاد پر تکیہ اور خود کفائی،وسائل کی پیداوار اور تقسیم میں اقتصادی عدل و انصاف کی رعایت، محروم طبقات کی حمایت و دفاع، سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ مقابلہ، مالکیت اور سرمایہ و سرمایہ گزار کا احترام، عالمی اقتصاد میں ہضم نہ ہونا اور قومی اقتصاد میں استقلال جیسے امور حضرت امام خمینی (رہ) کے اقتصادی اصولوں میں شامل ہیں۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی حکام سے ہمیشہ یہ توقع رہی کہ وہ ملک میں اس اصول کو مدبرانہ اور عقلمندانہ طریقہ اور اقتدار اور مدیریت کے ساتھ نافذ کریں اوراسے آگے بڑھائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس اصول کو حضرت امام (رہ) کا روڈ میپ اور نقشہ راہ قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی عوام اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں اور راسخ و پختہ ایمان کی بدولت، اور جوانوں کی ہمت اور حضرت امام خمینی (رہ)کے روڈ میپ سے استفادہ کرتے ہوئے گذشتہ 34 برسوں کے طے شدہ راستے کو قدرت اور سرعت کے ساتھ جاری رکھ سکتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے اسے حقیقی نمونہ میں تبدیل کرسکتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے گیارہویں صدارتی انتخابات کو حساس اور اہم قراردیتے ہوئے اس سلسلے میں بعض نکات کی طرف اشارہ فرمایا۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کو حضرت امام خمینی (رہ)کے تینوں اعتقادات کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: انتخابات، اللہ تعالی پر اعتقاد کا مظہر ہیں لہذا ملک کی سرنوشت میں اپنی تکلیف اور ذمہ داری کی بنیاد پر شرکت کرنی چاہیے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام کی انتخابات میں وسیع پیمانے پر ولولہ انگیز شرکت کوسیاسی جہاد و رزم خلق کرنے کے سلسلے میں انتخابات کے سب سے اہم موضوع میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: عوام کی آٹھ امیدواروں میں سے کسی بھی امیدوار کے حق میں رائے سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ اور انتخابات کے طریقہ کار کے حق میں رائے ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دوسرے مرحلے پر یہ ووٹ اپنے منتخب امیدوار کے حق میں ہے جسے ہر شخص اپنی تشخیص کے مطابق ملک کے مستقبل کے لئے سب سے بہتر اورمفید سمجھتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نےدشمنوں کی جانب سے انتخابات کو اسلامی نظام کے لئے خطرہ قراردینے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمنوں کی توقع ہے کہ ایران کے انتخابات شوق و نشاط کے بغیر اورسرد و بے جان منعقد ہوں یا انتخابات کے بعد سن 1388 ہجری شمسی کی طرح فتنہ برپا ہو لیکن دشمن اپنے منصوبوں میں اشتباہ اور غلطی کا ارتکاب کررہے ہیں کیونکہ انھوں نے ایرانی قوم کو پہچانا نہیں اور انھوں نے 9 دی میں ہونے والی عوامی ریلیوں کو بھی فراموش کردیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمنوں کے منصوبے کے برعکس 24 خرداد مطابق 14 جون کے صدارتی انتخابات اسلامی جمہوری نظام کے لئے بہت بڑی فرصت اور بہترین موقع ثابت ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمنوں کا تصور یہ ہےکہ ملک میں نظام کے خلاف خاموش اکثریت موجود ہے جبکہ دشمنوں نے 22 بہمن کو بھلا دیا ہے جبکہ گذشتہ 34 برسوں میں 22 بہمن کے موقع پر عوام کی عظیم تعداد سڑکوں پر آکر امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتی اور اسلامی نظام کے دفاع کے لئے سڑکوں پر حاضر ہوتی رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے بد نیت دشمنوں اور ان کے فکری شعبوں کی جانب سے انتخابات میں عوامی جوش و خروش کو کم کرنے کے سلسلے میں جھوٹی و بے بنیاد تبلیغات اور پروپیگنڈے نیز انتخابات میں خلاف ورزی اور دھاندلی کی خبریں پھیلانے کے سلسلے میں ان کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دنیا میں ہونے والے انتخابات میں کہاں یہ اجازت دی جاتی ہے کہ معروف اور غیر معروف افراد ملک کے قومی ذرائع ابلاغ اور ریڈیو و ٹی وی سے مساوی طور پر اپنی تبلیغات کے لئے استفادہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکہ اور سرمایہ دارممالک میں اگر امیدوار دو یا تین پارٹیوں کا رکن نہ ہو اور دولت و ثروت اور قدرت کےمافیا اور صہیونی نیٹ ورک اس کی حمایت نہ کریں تو اس کے پاس تبلیغ کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے انتخابات میں قانون کو تمام امور کا مرجع اور حاکم قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران میں انتخابات میں وارد ہونے پر جو چیز حاکم ہے وہ قانون ہے اور قانون کے مطابق کچھ لوگ انتخابات میں امیدوار بن سکتے ہیں اور کچھ لوگ نہیں بن سکتے،اور وہ لوگ جو امیدواروں کی صلاحیت تشخیص دیتے ہیں وہ بھی قانون کے مطابق مشخص ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ان حقائق پر بیرونی دشمنوں نے آنکھیں بند کررکھی ہیں اور وہ جھوٹی تبلیغات میں مصروف ہیں اور افسوس کہ ملک کے اندر بعض غیر متقی قلم اور زبانیں بھی ان کی جھوٹی باتوں کی تکرار کررہی ہیں ۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایرانی قوم دشمنوں کی ان تمام سازشوں کا محکم اور دنداں شکن جواب دےگی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک حصہ میں صدارتی انتخابات کے امیدواروں کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں چند اہم سفارشیں کیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: محترم صدارتی امیدوار جس چیز کے بارے میں چاہییں تنقید کرسکتے ہیں لیکن انھیں توجہ رکھنی چاہیے کہ تنقید کا مطلب، نا انصافی ، منفی پروپیگنڈہ اور سیاہ نمائی نہیں ہے بلکہ تنقید کا مطلب پختہ عزم و نیت اور تلاش کے ساتھ قابل فخر راہ کو طے کرنا اور مشکلات کو حل کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر چہ غیر ملکی ذرائع ابلاغ غیظ و غضب کے ساتھ میری باتوں کو بعض امیدواروں کے ساتھ منتسب کرنے کی تلاش و کوشش کرتے ہیں لیکن میری باتیں کسی خاص امیدوار یا امیدواروں کے لئے نہیں بلکہ تمام امیدواروں کے لئے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: تنقید کا مطلب مثبت پہلوؤں کا انکار نہیں ہے لہذا وہ لوگ جو عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں انھیں موجودہ اور گذشتہ حکومتوں کے دور میں ہونے والے اہم کاموں کا انکار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کے بنیادی کاموں کی بنا پر ملک اس وقت ترقی اور پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اقتصادی مشکلات منجملہ مہنگائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قوم اور ہم سب کی تمنا یہ ہے کہ 24 خرداد مطابق 14 جون کو قوم کا منتخب صدر اقتصادی مشکلات کا حلاّل ہو لیکن امیدواروں کو اقتصادی مشکلات حل کرنے کے سلسلے میں اپنے منصوبوں میں ان کاموں کی نفی نہیں کرنی چاہیے جو انجام پذیر ہوچکے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے آٹھ امیدواروں کو سفارش کی کہ وہ قوم کو ایسے وعدے نہ دیں جنھیں وہ پورا نہ کرسکیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امیدواروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اس طرح بات کریں کہ اگر آئندہ سال خرداد کےمہینے میں آپ کی آج کی کیسٹ کو نشر کیا جائے تو آپ کو اسوقت شرمندگی و شرمساری کا سامنا نہ ہو اورآپ ادھر و ادھر کا بہانہ تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے صدر کے اختیارات کو بنیادی آئین میں وسیع قراردیتے ہوئے فرمایا: صرف قانون ہی صدر کے لئے محدودیت ہے جبکہ قانون اختیارات کو محدود نہیں کرتا بلکہ ہدایت کرتا ہےاور صحیح راہ کو دکھانے کا آئینہ اور رہنما ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امیدواروں کو عوام کے سامنے اپنے پروگرام پیش کرنے اورعوام کو چند بنیادی وعدے دینےکی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: عوام سےوعدہ کریں کہ سنجیدگی ،درایت اور تلاش و کوشش کے ساتھ کام کریں گے، عوام سے وعدہ کریں کہ صدارتی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے بنیادی آئین کی تمام ظرفیتوں سے استفادہ کریں گے، عوام سے وعدہ کریں کہ اقتصادی مسئلہ پر کافی توجہ مبذول کریں گے جو اغیار کی جانب سے ایک چیلنج میں تبدیل ہوگیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امیدواروں کے لئےغیر ضروری مسائل سے دوری کوقوم کے ساتھ ان کا وعدہ قراردیتے ہوئے فرمایا: آپ قوم کے ساتھ وعدہ کریں صدر منتخب ہونے کی صورت میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو کھلی چھٹی نہیں دیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے صدارتی امیدواروں کو قومی مفادات کی حفاظت و پاسداری کے بارے میں عوام سے وعدہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: بعض غلط تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دشمن کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اسے کچھ امتیازات دینے چاہییں لیکن یہ کام غلط ہے اور ایسا قدم قومی مفادات پر اغیار کے مفادات کو ترجیح دینے کے مترادف ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی عوام اوراسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی و پیشرفت اور امام (رہ) کے اہداف کی سمت حرکت، دشمن کے غصہ کا اصلی سبب ہے اور انکا مقابلہ کرنے کاطریقہ یہی ہے کہ قومی اقتدار ، استقلال اور مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں تلاش و کوشش پیہم جاری رہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر فرمایا: دس دن کے بعد ایرانی قوم کا بہت بڑا امتحان ہے اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایرانی قوم درخشاں نتائج اور جہاد و رزم کے ساتھ اس امتحان میں بھی کامیاب اور سرافراز ہوجائے گی۔