رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہفتہ وحدت، امت کے مسلمہ کے ما بین اتحاد و یکجہتی کا بہترین موقع ہے، بیرونی دشمن اور آگاہ و نا آگاہ عوامل کو نہ فقط اتحاد پسند نہیں بلکہ وہ مستقل اختلافات کو ہوا دینے اور تفرقہ اندازی میں مصروف رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کے اتحاد کو کاری ضرب لگا سکیں ۔
اتحاد و یکجہتی کے حوالہ سے آگاہ اور بابصیرت علماء کا کردار ان لوگوں کی ہدایت میں جن لوگوں کا خدا، رسول، قران اور قبلہ ایک ہے کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ۔
ہم شیعہ و سنی اتحاد کے سلسلہ میں رهبر معظم انقلاب اسلامی کے نظریات «ولی فقیہ»، «مجتهد بصیر» اور«مرجع آگاه» ہونے کے لحاظ سے بیان کررہے ہیں ۔
یہ متن سن 1368 ہجری شمسی میں طلاب و علماء کے درمیان تقریر کا ٹکڑا ہے :
« اگر اسلامی اقداروں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ ہو اور انسانوں کو ان اقداروں کی سمت متوجہ کرنا ہو جس کی بنیادوں پر مسلمانوں کے طرز حیات میں تبدیلیاں رونما ہونی ہوں تو لازم ہے کہ ملت مسلمہ میں اتحاد و یکجہتی کو برقرار رکھا جائے ، ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹ جانے ، ایک دوسرے کو دشمن بنانے اور مسلکی جنگ و جدال چھیڑنے سے امت مسلمہ میں اتحاد کا حصول ناممکن ہے ۔ »
میں اسلامی مذاھب کے ماننے والوں سے یہ نہیں کہتا ہوں کہ اپنے عقائد سے دست بردار ہوجائیں اور دوسرے فرقہ کے عقائد کو اپنا عقیدہ بنا لیں ، مگر تمام مسلمانوں سے یہ کہوں گا کہ ہمارے درمیان اہم اور کثیر مشترکات موجود ہیں جو اختلافی موارد سے کہیں کم ہیں ، ہمارے دشمنوں نے اختلافات کو وسیلہ بنایا مگر ہمیں مشترکات کو تقویت عطا کرنی چاہئے اور اپ ہرگز دشمن کو موقع نہ دیں کہ تفرقہ کے بہانہ ملت اسلامیہ پر دباو ڈال سکے ۔
الحمد للہ ہم نے ایران میں ان مشکلات کو حل کرڈالا ہے اور دنیا کے مختلف گوشہ میں بہت سارے ہمارے بھائیوں نے ان مشکلات کو حل کردیا ہے یا اس کے حل میں مصروف ہیں مگر دشمن ایک عرصہ سے اس کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور قریب دوسوسال سے – جب سے سامراجیت نے اسلامی ممالک میں قدم گاڑا – اس موضوع پر کام کیا اور مسلمانوں کو اپس میں لڑایا ، ہم بہت زیادہ محتاط رہیں ، شیعہ و سنی خود سے عہد کریں کہ اسلامی فرقوں اور مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کوشاں رہیں گے اور متبادل برادرانہ محبت کی حفاظت کریں گے ۔»