09 May 2016 - 22:00
News ID: 422252
فونت
پاکستان کا قیام ایک معجزہ تھا، تحریک پاکستان میں اہل تشیع کا بنیادی رول تھا، شیعہ اس معجزے کے معجز نما ہیں۔ خدا پر ایمان اور توسل یہ ہمت اور جذبہ عطا کرتا ہے کہ بڑی سے بڑی منزل آسانی سے سر ہو جاتی ہے۔ قیام پاکستان کا معرکہ ایک عظیم الشان فتح تھی، جس کے سرخیل اہلبیت علہیم السلام سے محبت رکھنے والے مسلمان تھے، سوچ، فکر، علمی، عملی، مالی اعتبار سے قائدانہ بنیادی کردار انہی کا تھا۔
لنیک یا حسین علیہ السلام


تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ


قیام پاکستان کے بعد اہم نوعیت کے امور میں سے ایک ایسے نظام کی تیاری تھا, جسکی بنیاد پہ اسلام کے نام پہ قائم ہونے والی مملکت ایک اسلامی ماڈل ریاست کے طور پر دنیا میں وقار کیساتھ مسلمانوں کی شاندار نمائندگی کرسکے۔ قراداد مقاصد میں اس کے اہم اصولوں کو بڑی جانفشانی سے تیار کرکے آئین کا حصہ بنانے والوں میں شیعہ علماu کا کلیدی کردار تھا۔ ایک آزاد ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے ہندوستان کے مسلمان ایک بحران کا شکار تھے، علامہ اقبال کی بے بدل فکری رہنمائی اور قائد اعظم محمد علی جناح کی دیانتدارانہ قیادت میں لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں نیا ملک وجود میں آیا۔ آزادی کا خواب پورا ہوا, لیکن بحران ختم نہیں ہوا۔ بحران جسکی واضح تعریف استعمار سے آزادی تھا، قائد اعظم کی وفات کے بعد بدستور بڑھتا گیا۔
 

پاکستان برطانوی استعمار سے آزاد ہوا، لیکن امریکی بلاک میں شامل ہو کر نئے استبداد کا جیرہ خوار بنا دیا گیا۔ اسوقت سے مملکت خداداد آزادی سے پہلے والے بحرانوں کا شکار رہی ہے۔ نوبت ضیاءالحق کے مارشل لا تک آ پہنچی اور برطانوی تسلط سے آزادی پانے والے مسلمان ملک کو روس کے قبضے سے بچانے کا جھانسہ دیکر امریکہ کی مقبوضہ کالونی بنا دیا گیا۔ غلامانہ ذہنیت کے حامل حکمرانوں نے مفاد پرستی پہ مبنی پالیسی جاری رکھی، اسکے نتائج نہایت بھیانک ہیں، آج دہشت گردی، قتل و غارت، اقتصادی بدحالی، سیاسی عدم استحکام، افراتفری اور بالآخر تکفیریت کے عفریت نے پاکستانی مسلمانوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ پاکستان میں ایسا نظام رائج ہے جہاں عدالت، خیر خواہی اور انصاف مفقود ہیں۔ مذہب کے نام پہ استحصال سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنو امیہ کی پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے، بدعنوان اشرافیہ کے طرز حکمرانی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے، استعماری طاقتوں کی کاسہ لیسی حکمران نسلوں کی وراثت بن چکی ہے، کلمہ حق کہنے کی جرات اور ہمت دم توڑ چکی ہے، ظلم کا دور دورہ ہے، لیکن جان لیوا سکوت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کوئی نہیں جو ظلم و جور کیخلاف آواز بلند کرے۔ اس ساری صورتحال میں ایک گروہ ہے جو ظلم ستیزی کے اصول کو جان سے زیادہ اہم گردانتا ہے، پورے عالم میں عادلانہ نظام کا خواب لئے ہر قدم پہ قربانیاں دے رہا ہے۔
 

جب پورے عالم اسلام نے امریکی، صہیونی اور سعودی ظالمانہ تکون کے آگے سرنگوں کر دیا ہے، اسوقت یہ کون ہیں، جو یزیدیت مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں تو امریکی ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے، جب امریکہ مردہ باد کی صدائیں بلند کرتے ہیں تو تکفیری لشکروں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں، جب بنت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار اقدس کی آزادی اور آل یہود کے حرمین پر غاصبانہ قبضے کو چیلنج کرتے ہیں تو ریال اور ڈالر پہ پلنے والے حکمران اشرافیہ کی سازشوں کا سامنا کرتے ہیں، جب قبلہ اول پہ صہیونی قبضے کیخلاف احتجاج کرتے اور اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم دہراتے ہیں تو جہاد کے نام پہ فساد برپا کرنے والوں کے خنجر ان کے بچوں، بوڑھوں، جوانوں کی گردنیں اڑا دیتے ہیں، یہ کون ہیں؟ ڈیرہ اسماعیل خان ہو یا کراچی، پاکستان ایک مقتل کا منظر پیش کر رہا ہے۔
 

ظالم، ستم گر، امریکی ایجنٹ تکفیریوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے، تڑپتے لاشوں پہ کھڑے ہو کر اللہ کی راہ میں نئی قربانیوں کے لئے تجدید عہد کرنے والے، عدالت خواہی کے اصول پہ قائم، کربلائے عصر کے باسی، امام حسین ابن علی علہیم السلام کے شیعہ ہیں۔ اہل سنت انکے بھائی ہیں، اہل تشیع کو اپنے وطن کی ہر گلی، ہر نگر، گھر، بازار، مسجد، امام بارگاہ، جلسے، جلوسوں میں قتل کیا جا رہا ہے، لیکن عزاداری، یاعلیؑ کے نعرے، لبیک یاحسینؑ کی گونج میں اضافہ ضیاءالحق کی روح کو تڑپا رہا، یزید اہل جہنم کے درمیان نوحہ کناں ہیں، حزب اللہ کی کامیابیاں جاری ہیں، پاکستانی مقتل سے امام خمینی رحمۃ اللہ کے سرباز جنازے اٹھا رہے ہیں، لیکن انکی گردنیں جھکی نہیں، ایک کے بعد دوسری نسل آزادی، استقلال کے نعرے کو پاکستان کی بنیاد بنانے کے خط ولایت پہ ڈٹے ہوئے ہیں، کوفہ و شام کے بازاروں میں بنت زہرا سلام اللہ علیہھا کے خطبوں کی گونج جاری ہے، افغانستان سے اٹھنے اور صہیونیوں کی سرپرستی میں شام پہنچنے والے قاتل تکفیریوں کے حامی، اپنے طور پر پاکستانی شیعہ کو امام خمینی کے خط سرخ، راہ شہادت سے ہٹانے کے لئے تمام حربے آزما رہے ہیں، امریکی انکے سرپرست ہیں، قدیم عرب جہالت کے زرپرست ایجنٹوں کی بہتات ہے، لیکن ماوں کی گود سے درس شہادت لینے والے پیروکاران امام حسین علیہ السلام کی نسلیں کربلا والوں کے راستے پہ گامزن ہیں۔
 

آج جب پاکستانی شیعوں کے ننھے منے بچوں سے لیکر ادھیڑ عمر بزرگوں تک گردنیں تنی ہوئی اور شہادت کو افتخار سمجھ کر سر بلند ہیں، تو یہ تن تنا دراصل ہمارے دشمن کے حوصلوں کو پست کرتا ہے، ظالموں کے یہ محل ریت کی دیوار ثابت ہوں گے، عالمی عادلانہ نظام حکومت کے قیام میں پاکستانی شیعہ اپنا حصہ ادا کرتا رہے گا، ایک دن آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا، وہ وقت دور نہیں جب کربلائے حلب میں قربان ہونیوالے شہیدوں کے آرمان پورے ہوں گے، ظاغوت کا پرچم سرنگوں ہوگا، پورے عالم اسلام کو حقیقی نجات نصیب ہوگی اور پاکستان کے مقتل میں قربانی دینے والے شیعوں کا خون کا اسلام کے نام پہ قائم ہونے والی ریاست کے صاف دل اور نیک نیت شہریوں کو ایرانی، لبنانی، یمنی اور بحرینی بھائیوں کے سامنے، پورے دم خم کیساتھ سر اٹھا کے سچا عزادار کہلانے کا حوصلہ دے گا۔
 

انقلاب امام خمینی، کربلا کا تسلسل ہے، پاکستانی عزادار راہ امام پہ ڈٹے ہیں، شہادتیں اس راہ کا لازمی حصہ ہیں، لبیک یاحسین ؑ کا نعرہ کرپٹ اور بوسیدہ غیر اسلامی سیاسی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا ہے، وہ خوش نصیب ہیں جو کربلا کے راستے میں جانیں قربان کر رہے ہیں، باقی رہ جانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ زینبیؑ طرز عمل پہ زندگی استوار کریں، نتیجہ خدا پہ ہے، مسلمان کا فریضہ وظیفے کی انجام دہی ہے، چاہے اس رستے میں اپنی جان ہی چلی جائے۔ پاکستان کا مقتل اگر مزید خون طلب کرے تو راہ حسینؑ میں ہزاروں جانیں حاضر ہیں، زندگی تو امام حسین علیہ السلام کی امانت ہے، اس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے، پاکستانی شیعہ ظالم اور جابر حکمران مافیا سے بھیک مانگنے والے نہیں، شام غریباں کا منظر ہر لمحے آنکھوں کے سامنے ہے، مستقبل تاریک نہیں، چونکہ بنت زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا تھا کہ اے خدا میں نے اتنی بڑی قربانیوں کے بعد سوائے تیرے جمال کے کچھ نہیں دیکھا۔ حسینیؑ جذبوں کے امین مسلمانوں کے لئے شہادت تا ابد باعث افتخار ہے۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬