13 June 2016 - 15:11
News ID: 422380
فونت
تیسری رمضان کی دعا کی مختصر شرح:
اے معبود! آج کے دن مجھے ہوش اور آگاہی عطا فرما مجھے ہر طرح کی نا سمجھی اور بے راہ روی سے بچا کے رکھ اور مجھ کو ہر اس بھلائی میں سے حصہ دے جو آج تیری عطاؤں سے نازل ہو اے سب سے زیادہ عطا کرنے والے۔
رمضان

 

 

اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی فِیہِ الذِّھْنَ وَالتَّنْبِیہَ، وَباعِدْنِی فِیہِ مِنَ السَّفاھَةِ وَالتَّمْوِیہِ، وَ اجْعَلْ لِی نَصِیباً مِنْ کُلِّ خَیْرٍ تُنْزِلُ فِیہِ، بِجُودِکَ یَا أَجْوَدَ الْاَجْوَدِین.[۱]

 

 

اے معبود! آج کے دن مجھے ہوش اور آگاہی عطا فرما مجھے ہر طرح کی نا سمجھی اور بے راہ روی سے بچا کے رکھ اور مجھ کو ہر اس بھلائی میں سے حصہ دے جو آج تیری عطاؤں سے نازل ہو اے سب سے زیادہ عطا کرنے والے۔

 

خدا کی نعمتوں میں ایک عظیم نعمت عقل ہے، عقل کی اہمیت کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) اس طرح فرما رہے ہیں: « انسان کی بنیاد اسکی عقل ہے۔ ہوش، فہم، حافطہ، علم سب عقل کی بناء پر ہے، عقل انسان کو انسانیت سیکھاتی ہے اور عقل انسان کی راہنما ہے اور راستہ دیکھانے والی ہے اور اسکے کام کی چابی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کہاں سے آیا ہے اور اسکو کہاں پر جانا ہے یہ سب عقل کے ذریعہ انسان کو معلوم ہوتا ہے»۔[۲]
 

کیونکہ عقل اور ذہن کی وجہ سے انسان کو انسان کہا جاتا ہے اسی لئے آج کے دن ہم خدا سے دعا کر رہے ہیں: « اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی فِیہِ الذِّھْنَ وَالتَّنْبِیہَ؛ اے معبود! آج کے دن مجھے ہوش اور آگاہی عطا فرما»۔

 

انسان جس کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے اسکے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ بیکار اور عبث کاموں میں اپنے آپ کو مصروف رکھے کیونکہ خداوند عالم نے اسے بیکار اور عبث کاموں کے لئے خلق نہیں کیا بلکہ اس لئے خلق کیا تاکہ انسانیت کے بلند درجوں کو حاصل کرے، جیسا کے خداوند عالم خود انسان کی خلقت کی غرض کو بیان کررہا ہے: « و ما خلقت الجن و الانس الا ليعبدون[سورہ ذاریات،آیت:۵۶] اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے»۔

 

عقلمند انسان بیکار کاموں سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے اور خدا پر ایمان لاتا ہے اور اسکے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرتا ہے، جیسا کہ امام صادق(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « لَیْسَ بَیْنَ الْإِیمَانِ وَ الْکُفْرِ إِلَّا قِلَّةُ الْعَقْلِ قِیلَ وَ کَیْفَ ذَاکَ یَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ یَرْفَعُ رَغْبَتَهُ إِلَی مَخْلُوقٍ فَلَوْ أَخْلَصَ نِیَّتَهُ لِلَّهِ لَأَتَاهُ الَّذِی یُرِیدُ فِی أَسْرَعَ مِنْ ذَلِکَ[۳] ایمان اور کفر کے درمیان صرف قلت عقل کا فاصلہ ہے، کسی نے کہا یابن رسول اللہ وہ کیسے، آپ نے فرمایا: بندہ جب اپنی حاجت کو دوسری مخلوق سے مانگتا ہے(جو خود نیازمند ہے) اگر خلوص نیت کے ساتھ خدا سے اپنی حاجت کو طلب کرے تو خدا جلد سے جلد اسکی حاجت کو پور کریگا»۔

 

جو کوئی خدا پر اس طرح ایمان لاتا ہے اور خدا کے سوا کسی اور کے سامنے اپنے ہاتھ نہیں پھیلاتا ہے وہ بیکار کاموں کو انجام نہیں دیتا ہے، اسی لئے آج کے دن ہم خداوند عالم سے دعا مانگ رہے ہیں کہ ہمیں بیکار کاموں سے محفوظ رکھ: « وَباعِدْنِی فِیہِ مِنَ السَّفاھَةِ وَالتَّمْوِیہِ؛ مجھے ہر طرح کی نا سمجھی اور بے راہ روی سے بچا کے رکھ»۔

 

ماہ مبارک رمضان، خیر اور برکت والا مہینہ ہے، اس لئے ہم خدا کی بارگاہ میں درخواست کر رہے ہیں: وَ اجْعَلْ لِی نَصِیباً مِنْ کُلِّ خَیْرٍ تُنْزِلُ فِیہِ، بِجُودِکَ یَا أَجْوَدَ الْاَجْوَدِین؛ مجھ کو ہر اس بھلائی میں سے حصہ دے جو آج تیری عطاؤں سے نازل ہو، اے سب سے زیادہ عطا کرنے والے)۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالے:

[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۲۔

[۲]۔»دِعامَةُ الاِْنْسانِ الْعَقْلُ وَ الْعَقْلُ مِنْهُ الْفِطْنَةُ وَ الْفَهْمُ وَ الْحِفْظُ وَ الْعِلْمُ وَ بِالْعَقْلِ يَكْمُلُ وَ هُوَ دَليلُهُ وَ مُبْصِرُهُ وَ مِفْتاحُ اَمْرِهِ فَاِذا كانَ تَاْييدُ عَقْلِهِ مِنَ النّورِ كانَ عالِما حافِظا ذاكِرا فَطِنا فَهِما فَعَلِمَ بِذلِكَ كَيْفَ وَ لِمَ وَ حَيْثُ وَ عَرَفَ مَنْ نَصَحَهُ وَ مَنْ غَشَّهُ فَاِذا عَرَفَ ذلِكَ عَرَفَ مَجْراهُ وَ مَوصولَهُ وَ مَفْصولَهُ وَ اَخْلَصَ الْوَحْدَانِيَّةَ لِلَّهِ وَ الْإِقْرَارَ بِالطَّاعَةِ فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ كَانَ مُسْتَدْرِكاً لِمَا فَاتَ وَ وَارِداً عَلَى مَا هُوَ آتٍ يَعْرِفُ مَا هُوَ فِيهِ وَ لِأَيِّ شَيْ‏ءٍ هُوَ هَاهُنَا وَ مِنْ أَيْنَ يَأْتِيهِ وَ إِلَى مَا هُوَ صَائِرٌ وَ ذَلِكَ كُلُّهُ مِنْ تَأْيِيدِ الْعَقْل» محمد ابن یعقوب کلینی، اصول کافی، دار الکتب الاسلامی، ۱۴۰۷ق، ج۱،  ص۲۵۔

[۳]۔ اصول کافی،ج۱، ص۳۸۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬