اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی فِیہِ رَحْمَةَ الْاَیْتامِ وَ إِطْعامَ الطَّعامِ وَ إِفْشاءَ السَّلامِ وَصُحْبَةَ الْکِرامِ، بِطَوْ لِکَ یَا مَلْجَأَ الْاَمِلِینَ.[۱]
خدایا اس دن مجھے توفیق عطا فرما یتیموں پر رحم کرنے، بھوکوں کو کھانا کھلانے اور اسلام کو پھیلانے اور نیک لوگوں کی صحبت میں رہنے کی اپنے انعام کے ذریعہ، اے آرزو مندوں کی پناہ گاہ۔
اسلام کے احکام میں سے ایک حکم یتیموں پر رحم کرنا ہے، خداوند متعال نے یتیموں پر رحم کرنے کے بارے میں بہت تاکید کی ہے، مولائے کائنات حضرت علی(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: «الله، الله بالایتام، فلا تغبوا افواههم [۲] خدا کے لئے یتیموں کے بارے میں ہوشیار رہو، ایسا نہ ہو کہ وہ کبھی بھوکے اور کبھی سیر(پیٹ بھر) رہ جائے »۔ اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرما رہے ہیں: « خیر بیوتکم بیت فیه یتیم یحسن الیه و شر بیوتکم بیت یساء الیه[۳] جس گھر میں یتیم پر شفقت اور احسان کیا جائے وہ سب سے اچھا گھر ہے اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بداخلاقی کی جائے».
یتیموں پر رحم اور شفقت کرنےکے سلسلہ میں بہت زیادہ احادیت ہیں، ان احادیت سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صرف یتیم کے سر پر ہاتھ پھیردینے سے اسکے حقوق اداء نہیں ہوتے بلکہ یتیم کی روزمرہ کی تمام ضروریات کو پورا کرنا تمام مسلمانوں کا فریضۃ ہے بالخصوص ہم، جو اپنے آپ کو معصومین(علیہم السلام) کا پیروکار اور چاہنے والا کہتے ہیں، کیونکہ ہم مولائے کائنات کی سیرت میں دیکھتے ہیں کہ آپ کتنے یتیموں کی سرپرستی کیا کرتے تھے، خدا ہم سب کو یتیموں کے حقوق اداء کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اسی لئے ہم آج کے دن خدا کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں: « اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی فِیہِ رَحْمَةَ الْاَیْتامِ؛ خدایا اس دن مجھے توفیق عطا فرما یتیموں پر رحم کرنے»۔
اس مہینہ میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، غریبوں اور روزہ داروں کو کھانا کھلانے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، اسکے بارے میں امام محمد باقر(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « لَئِنْ اُطْعِمَ اَخَاً لی مُسْلِماً اَحَبُّ اِلیَّ مَنْ اَنْ اُعْتِقَ اُفُقاً مِنَ الناس،قیلَ: و کَمِ اِلْاُفُقُ؟قال (ع): عَشرَهُ آلافٍ[۴] اگر کوئی اپنے مسلمان بھائی کو کھانا کھلائے تو میرے نزدیک وہ اس شخص سے بہتر ہے جو ایک افق غلاموں کو آزاد کرے، آپ سے پوچھا گیا کہ ایک افق کتنا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: دس ہزار». آج کے دن خدا کی بارگاہ میں دعاگو ہیں کہ ہمارا شمار کھانا کھلانے والوں میں فرمائے۔
آداب اسلامی میں سے ہے کہ مسلمان جب ایک دوسرے سے ملاقات کرے تو سب سے پہلے سلام کرے، امام حسین(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « لا تأذنوا لاحد حتی یسلم[۵] جو کوئی سلام نہ کرے، اسے بات کرنے کی اجازت نہ دو»، دوسری حدیث میں آیا ہے کہ: « ابخل الناس من بخل بالسلام[۶] بخیل ترین شخص وہ ہے جو سلام کرنے میں کنجوسی کرے»۔ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا نااہل کو بھی سلام کرنا چاہئے، اسکے جواب میں امام حسین(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: « انَّ ابنَ الکُوَّا سَاَلَ علیِّ بن اَبی طالِب علیه السلام،فقالَ:یا اَمیرَالمومنینَ،تسلّم عَلَی مُذنبِ هَذِهِ الاُمَّه؟! فَقَالَ علیه السلام یَرَاهُ الله عَزَّوَجَلَّ للتوحید اهلاً،وَلانراهُ لِلسَّلام علیه اهلاً[۷] علی(علیہ السلام) نے ایک شخص کو سلام کیا، ابن کوا نے پوچھا، اے امیرالمؤمنین اس امت کے گنہگار کو سلام کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا: خداوند عالم اسے توحید کے لئے اہل جان رہا ہے، اور تم اسے سلام کا بھی اہل نہیں سمجھتے»۔
علی(علیہ السلام) کی سیرت پر عمل کرنے کے لئے ہم آج کے دن خداوند عالم سے دعا کر رہے ہیں، اے خدا ہمارا شمار سلام کرنے والوں میں فرمائے اور خدا سے آج کے دن دعا ہے کہ ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۳۔
[۲]۔محمد ابن حسین شریف الرضی، نھج البلاغہ، ھجرت، ۱۴۱۴ق،ص۴۲۱۔
[۳]۔ حسین ابن محمد تقی نوری، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، مؤسسہ آل البیت (علیہم السلام)، ۱۴۰۸ق،ج۲، ص۴۷۴۔
[۴]۔ محمد ابن یعقوب کلینی، اصول کافی، دار الکتب الاسلامی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۰۲۔
[۵]۔محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی،۱۴۰۳ق، ج۷۵، ص۱۱۷
[۶]۔ بحار الانوار، ج۹۷۔ص۱۵۔
[۷]۔ مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل،ج۸، ص۳۵۹۔