اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ لِی فِیہِ نَصِیباً مِنْ رَحْمَتِکَ الْواسِعَةِ وَاھْدِنِی فِیہِ لِبَراھِینِکَ السّاطِعَةِ، وَخُذْ بِناصِیَتِی إِلی مَرْضاتِکَ الْجامِعَةِ، بِمَحَبَّتِکَ یَا أَمَلَ الْمُشْتاقِینَ[۱]
خدایا میرے لئے اس دن اپنی رحمت کا مکمکل وسیع حصہ قرار دے، اور اس میں میری ھدایت کر اپنی روشن دلیلوں کے ذریعہ، اور میری پیشانی کو اپنی جامع خشنودی کی جانب لےجا اپنی حجت کے ذریعہ، اے شوق والوں کی آرزو۔
خداوند عالم کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ ہم اسکا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے، جیسا کہ خود خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے: « فَقُلْ رَبُّکُمْ ذُو رَحْمَهٍ واسِعَه[سورہ انعام،آیت:۱۴۷] "کہہ دیجئے کہ تمہارا پروردگار بڑی وسیع رحمت والا ہےٍ"، وہ رحمت کا ایسا بہتا ہوا چشمہ ہےکہ جس سے تمام کائنات سیراب ہوتی رہتی ہے، جو سب کے لئے واضح اور روشن ہے، جس کی طرف رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشارہ فرما رہے ہیں: « إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ أَنْزَلَ مِنْهَا رَحْمَةً وَاحِدَةً بَيْنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ وَ الْبَهَائِمِ وَ أَخَّرَ تسعة [تِسْعاً] وَ تِسْعِينَ رَحْمَةً يَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ[۲] خداوند متعال کی رحمت کے سو باب ہیں، جن میں سے اس نے ایک کو زمین پر نازل کیا ہے اور(اس رحمت) کو اپنی مخلوق میں تقسیم کیا ہے۔ لوگوں کے درمیان جو عطوفت، مہربانی اور محبت ہے وہ اسی کا پرتو ہے لیکن ننیانوے حصے رحمت اس نے اپنے لئے مخصوص رکھی ہے اور قیامت کے دن اپنے بندوں کو اس سے نوازے گا»، خداوند عالم کی اسی رحمت کا واسطہ دے کر ہم خدا کی بارگاہ میں دعاگو ہیں: « اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ لِی فِیہِ نَصِیباً مِنْ رَحْمَتِکَ الْواسِعَةِ؛ خدایا میرے لئے اس دن اپنی رحمت کا مکمکل وسیع حصہ قرار دے»۔
کبھی انسان راستہ معلوم کرنے والے کو اپنی تمام دقت اور لطف و کرم کے ساتھ راستہ بتاتا ہے، لیکن راستہ طے کرنا اور منزل مقصود تک پہنچنا خود اس انسان کا کام ہوتا ہے، اور کبھی انسان راستہ معلوم کرنے والے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور راستہ کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اس کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے، خداوند عالم نے ہمارے لیئے راستہ کی راہنمائی کردی ہے جیسا کہ خود خداوند عالم ارشاد فرمارہا ہے: « اِنَّا ہَدَیْنَاہُ السَّبِیلَ ِمَّا شَاکِرًا وَِمَّا کَفُورًا[سورہانسان، آیت:۳] یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے»، اب کس طرح اس ہدایت کو حاصل کریں، تاکہ خدا کی بندگی کرسکیں، اسکے جواب میں آج کی دعا کا یہ فقرہ ہے: « وَاھْدِنِی فِیہِ لِبَراھِینِکَ السّاطِعَةِ؛ اور اس میں میری ھدایت کر اپنی روشن دلیلوں کے ذریعہ»، اسکی روشن دلیلیں قرآن مجید اور اہل بیت(علیہم السلام) ہیں، جیسا کہ قرآن مجید کے بارے میں خداوند عالم خود فرما رہا ہے: « ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ[سورہ بقرہ، آیت:۲] یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے»، اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بھی اس طرح ارشاد فرما رہے ہیں: « إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ إِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَمْ تَضِلُّوا[۳] میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت، یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوسکتے یہاں تک کو حوض کوثر پر مجھ سے آ ملیں، ان دونوں سے تمسک اختیار کرو ہرگز گمراہ نہیں ہوں گے»، اسی لئے آج کے دن ہم خداوند عالم سے دعاگو ہیں کہ ہماری ہدایت فرما کے ہم قرآن اور اہل بیت(علیھم السلام) کے بتائے ہوئے راستہ پر چلیں جو ہدایت کی روشن دلیلیں ہیں۔
جب ہمیں خدا کی وسیع رحمت کا یقین ہوگا ، اور ہم قرآن اور اہل بیت(علیھم السلام) کے بتائے ہوئے راستہ پر چلیںگے تو یقینا خدا ہمیں اس چیز کی طرف پہونچائیگا جہاں اسکی رضی اور مرضی ہیں، اسی لئے ہم آج کے دن اسکی بارگاہ میں دعا کر رہے ہیں: « وَخُذْ بِناصِیَتِی إِلی مَرْضاتِکَ الْجامِعَةِ، بِمَحَبَّتِکَ یَا أَمَلَ الْمُشْتاقِینَ؛ اور میری پیشانی کو اپنی جامع خشنودی کی جانب لےجا اپنی حجت کے ذریعہ، اے شوق والوں کے آرزو»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۴۔
[۲]۔محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، دار احیاء التراث العربی،۱۴۰۳ق، ج۶، ص۲۱۹۔
[۳]۔ بحار الأنوار،ج۲، ص۲۲۶۔