اَللَّهُمَّ وَفِّقْنى فيهِ لِمُوافَقَةِ الاَبْرارِ وَ جَنِّبْنى فيهِ مُرافَقَةَ الاَشْرارِ وَ اوِنى فيهِ بِرَحْمَتِكَ اِلى دارِ الْقَرارِ بِاِلهِيَّتِكَ يا اِلهَ الْعالَمينَ۔[۱]
خدایا مجھ کو اس میں توفیق عطا کر نیکوکاروں کی موافقت کی اور مجھ کو محفوظ رکھ، بدکاروں کی رفاقت سے اور اپنی رحمت سے مجھ کو بہشت دارالقرار میں جگہ دے, اپنی الوہیت کے ذریعہ اے عالمین کے معبود۔
صالح افراد کی صحبت انسان کو اچھائی کی دعوت دیتی ہے، ایسے افراد میں موجود معنوی قوت و طاقت ان کے ہمنشین حضرات میں بھی سرایت کرتی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ان کے اعمال و کردار، انہیں کے مانند ہو جاتے ہیں، کبھی ایک نگاہ یا ایک دلنشین جملہ، دوسروں کی فکری و اعتقادی صورت حال کو بدل کر انہیں حیات جاوید عطا کردیتا ہے، نیک لوگوں کی نورانیت و پاکیزگی، دوسروں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور ان کے قلب کی آلودگی و تاریکی کو دور کر کے اپنی طرف جذب کر تی ہے، نیک اور پاکیزہ افراد کی صحبت سے قلب کی پاکیزگی میں اضافہ ہوتا ہے، اچھے لوگوں کے ساتھ رہنا اچھائی سیکھاتا ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی طرف دعاؤں میں بھی اشارہ ہوا ہے۔ جیسے کہ ائمہ معصومین(علیہم السلام) کی زیارت کے بعد ایک دعا کو پڑھنا مستحب ہےجس کے ایک حصے میں یوں بیان ہو اہے: « وَ اجْعَلْ حَظِّي مِنْ زِيَارَتِكَ تَخْلِيطِي بِخَالِصِي زُوَّارِكَ الَّذِينَ تَسْأَلُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فِي عِتْقِ رِقَابِهِمْ وَ تَرْغَبُ إِلَيْهِ فِي حُسْنِ ثَوَابِهِم[۲] اپنی زیارت سے مجھے اپنے ان خالص زوار میں سے قرار دے، جن افراد کی خداوند کریم سے آزادی چاہتے ہو اور جن کے لئے خدا سے نیک ثواب اور جن کے لئے خدا کی رغبت چاہتے ہو»۔
اسی لئے ہم آج کے دن دعا مانگ رہے ہیں: « اَللَّهُمَّ وَفِّقْنى فيهِ لِمُوافَقَةِ الاَبْرارِ؛ خدایا مجھ کو اس میں توفیق عطا کر نیکوکاروں کی موافقت کی»۔
پروردگارعالم نے برے اور نامناسب دوستوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے، یہ ایسے دوست ہیں جن کی دوستی پر لوگ روزِ قیامت شرمندہ ہوں گے: « وَیَومَ یَعَضُّ الظّٰالِمُ عَلیٰ یَدَیہِ یَقُولُ یٰا لَیتَنِی تَّخَذتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلاً''[سورہ فرقان، آیت:۲۷] اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا کہ کاش میں نے رسول کے ساتھ ہی راستہ اختیار کیا ہوتا»۔
اگر انسان جنت میں جانا چاہتا ہے تو اسکے لئے ضروری ہے کہ اچھے لوگوں کے ساتھ رہے اور اپنے اندر سے تمام بری صفات کو دور کرےجیسا کہ پروردگار عالم فرمارہا ہے: « وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ[سورہ مائده، آیت:۲] نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور تعدّی پر آپس میں تعاون نہ کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہنا کہ اس کا عذاب بہت سخت ہے»۔
خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہم کو برے لوگوں کی رفاقت سے دور رکھے اور جنت کو ہمارا ٹھکانہ قرار دے: « وَ جَنِّبْنى فيهِ مُرافَقَةَ الاَشْرارِ وَ اوِنى فيهِ بِرَحْمَتِكَ اِلى دارِ الْقَرارِ بِاِلهِيَّتِكَ يا اِلهَ الْعالَمينَ؛ اور مجھ کو محفوظ رکھ بدکاروں کی رفاقت سے اور اپنی رحمت سے مجھ کو بہشت دارالقرار میں جگہ دے اپنی الوہیت کے ذریعہ اے عالمین کے معبود »۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۵۔
[۲]۔ محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ، دار إحياء التراث العربي،۱۴۰۳ ق،ج۹۹، ص۱۷۳.