بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللَّهُمَّ اغْسِلْنى فیهِ مِنَ الذُّنُوبِ وَ طَهِّرْنى فیهِ مِنَ الْعُیُوبِ وَ امْتَحِنْ قَلْبى فیهِ بِتَقْوَى الْقُلُوبِ یا مُقیلَ عَثَراتِ الْمُذَنِبینَ.[۱]
خدایا! مجھ کو اس میں گناہوں سے پاکیزہ کردے، اور عیبوں سے صاف کردے، اور میرے دل کا امتحان تقوی کے ذریعہ لے کر مرتبہ عطا کردے، اےگنہگاروں کی لغزشوں کے معاف کرنے والے۔
گناہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو خیر و برکت سے محروم کردیتی ہے، لہٰذا انسان کو دعا کرنے سے پہلے استغفار کرنا چاہئے کیونکہ گناہ، دعا کے قبول نہ ہونے کا سبب واقع ہوتا ہے، جیسا کہ ہم دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں: « اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَحْبِسُ الدُّعَاء… فأَسْأَلُكَ بِعِزَّتِكَ أَنْ لَا يَحْجُبَ عَنْكَ دُعَائِي سُوءُ عَمَلِي وَ فَعَالِي[۲] بار الٰہا! میرے ان گناہوں کو معاف کردے جو دعا کے قبول ہونے میں مانع واقع ہوتے ہیں …بار الٰہا! میں تیرے جلال و عزت کی قسم کھاتا ہوں اور تجھ سے یہ چاہتا ہوں کہ میری بدکرداری اور بدرفتاری کو اپنی بارگاہ میں دعا کے قبول ہونے کے لئے مانع قرارنہ دے»۔
جب انسان اپنے آپ کو گناہ کی گندگی سے پاک کرتا ہے، اسی وقت وہ خدا کی قربت کو حاصل کرسکتا ہے، جو کہ انسان کی خلقت کا مقصد ہے، اسی لئے ہم خدا کی بارگاہ میں دعا کر رہے ہیں: « اَللَّهُمَّ اغْسِلْنى فیهِ مِنَ الذُّنُوبِ؛ خدایا مجھ کو اس میں گناہوں سے پاکیزہ کردے»۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو تمام عیوب سے پاک پیدا ہوتا ہے، آہستہ آہستہ وہ گناہ کے ذریعہ اپنے آپ کو معیوب کرتا چلا جاتا ہے، عیوب کئی طریقہ کے ہیں، جن میں سے کچھ، زبان کے عیب ہیں جیسے گالی دینا، تہمت لگانا، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، دوسروں کی شخصیت کو پامال کرنا۔۔ اسی طرح دل کے عیب جیسے حسد، بخل، کینہ، بغض، وغیرہ۔ اسی طرح، روح کے عیب جیسےخود کو بڑا سمجھنا، تکبر، غرور وغیرہ۔ جب انسان کے اندر یہ گناہ راسخ ہوجاتے ہیں تو اس سے بچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، اسی لئے بہتر ہے کہ انسان اپنے آپ کو ان عیوب سے پاک اور صاف رکھے۔
امام علی(علی السلام) عیب کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں: « أَکْبَرُ الْعَیْبِ أَنْ تَعِیبَ مَا فِیکَ مِثْلُه[۳] سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ خود میں جو عیب پایا جاتا ہے اسکو دوسروں میں ڈھونڈنا»۔
آج کے دن ہم اپنے تمام عیوب سے معافی مانگتے ہوئے دعا گو ہیں: « وَ طَهِّرْنى فیهِ مِنَ الْعُیُوبِ؛اور عیبوں سے صاف کردے»۔
اچھائی اور برائی دونوں کی جگہ انسان کا دل ہے، خدا اور اسکے بھیجے ہوئے اولیاء کی محبت یا دنیا کی محبت، سب اسی دل میں بستی ہے، روایت میں آیا ہے کہ مؤمن کا دل عرش رحمن ہے جس میں خدا کی محبت بستی ہے اور اس کے مقابلہ میں منافق کے دل میں شیطان بسا کرتا ہے، اسی لئے دل کا تقوی ضروری ہے۔ قرآن مجید میں اس کے بارے خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے: « یَوْمَ لَا یَنفَعُ مَالٌ وَ لَا بَنُونَ. إِلَّا مَنْ أَتىَ اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ[سورهٔ شعرا، آیت:۸۸- ۸۹] جس دن مال اور اولاد کوئی کام نہ آئے گا مگر وہ جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو»، اس کے بارے میں امام علی(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « یَا بُنَیَّ إِنَّ مِنَ الْبَلَاءِ الْفَاقَةَ وَ أَشَدُّ مِنْ ذَلِکَ مَرَضُ الْبَدَنِ وَ أَشَدُّ مِنْ ذَلِکَ مَرَضُ الْقَلْبِ وَ إِنَّ مِنَ النِّعَمِ سَعَةَ الْمَالِ وَ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِکَ سَعَةُ الْبَدَنِ وَ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِکَ تَقْوَى القلوب[۴] اے میرے بیٹے! فقر اور تنگ دستی، بلاؤں میں سے ہے، اور فقر سے سخت جسم کی بیماری ہے، اور جسم کی بیماری سے سخت دل کی بیماری ہے، مال اور دولت دنیا کی نعمتوں میں سے ہے، اور مال اور دولت سے بہتر بدن کا صحیح اور سالم رہنا ہے اور بدن کے صحیح اور سالم رہنے سے بہتر دلوں کا تقوی اختیار کرنا ہے».
خداوند متعال ہم سب کو شیطان کے وسوسوں سے اور نفسانی خواہشوں سے محفوظ رکھے، اسی لئے ہم آج کے دن پروردگار عالم سے دعا مانگ رہے ہیں: « وَ امْتَحِنْ قَلْبى فیهِ بِتَقْوَى الْقُلُوبِ یا مُقیلَ عَثَراتِ الْمُذَنِبینَ؛ اور میرے دل کا امتحان تقوی کے ذریعہ لے کر مرتبہ عطا کردے، اےگنہگاروں کی لغزشوں کے معاف کرنے والے»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۵۔
[۲]۔ المصباح للکفعمی, ص۵۵۵۔
[۳]۔محمد بن حسين شريف الرضى، نهج البلاغة (للصبحي صالح)، هجرت ، ۱۴۱۴ ق،ص۵۳۶.
[۴] محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق، ج۱، ص۸۸.