اَللَّهُمَّ اجْعَلْنى فیهِ مُحِبّاً لاَوْلِیآئِكَ وَ مُعادِیاً لاَعْدآئِكَ مُسْتَنّاً بِسُنَّةِ خاتَمِ اَنْبیآئِكَ یا عاصِمَ قُلُوبِ النَّبِیّینَ. [۱]
خدایا! مجھ کو اس میں اپنے دوستوں کا دوست اور اپنے دشمنوں کا دشمن قرار دے، اور اپنے خاتم الانبیاء کی سنت کا پابند بنا دے، اے پیغمبروں کے دلوں کی حفاظت کرنے والے.
صرف خدا کی محبت حقیقی محبت ہے، خداوند عالم کا حقیقی دوست اس کے ارادہ کو اپنے ارادہ پر مقدم رکھتا ہے، اور دوسروں سے بھی اس لئے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ خدا سے محبت کرتے ہیں، اور یہی ایمان کی بلندی کا سبب ہے۔ جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « لَا يَبْلُغُ أَحَدُكُمْ حَقِيقَةَ الْإِيمَانِ حَتَّى يُحِبَ أَبْعَدَ الْخَلْقِ مِنْهُ فِي اللَّهِ وَ يُبْغِضَ أَقْرَبَ الْخَلْقِ مِنْهُ فِي اللَّهِ[۲] تم میں سے کوئی بھی ایمان کی حقیقت تک نہیں پھونچ سکتا یہاں تک کہ اپنے سے دورترین مخلوق سے خدا کے لئے محبت کرے اور اپنے نزدیک ترین مخلوق سے خدا کے لئے نفرت کرے»۔
اس حدیث کی روشنی میں ہمیں یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ ہمیں ان لوگوں سے محبت کرنی چاہئے، جو خدا سے محبت کرتے ہیں، جو خدا کے مخلص اور نیک بندے ہیں، جن لوگوں نے کبھی بھی خدا کی نافرمانی نہیں کی، سوال یہ ہے کہ خدا کے وہ مخلص اور نیک بندے کون ہیں جو پوری طریقہ سے خدا کی اطاعت کرتے ہیں، اس کے جواب میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ صرف اور صرف انبیاء اور معصومین(علیہم السلام) ہیں جنھوں نے مکمل طریقہ سے اللہ کی اطاعت کی، ان لوگوں کی اطاعت کی بناء پر خدا نے ان لوگوں سے محبت کرنے کو ہم لوگوں پر فرض قرار دیا ہے کیونکہ ہم خدا کے خالص بندوں کی محبت کے ذریعہ خدا کی رضایت کو حاصل کرسکتے ہیں جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرما رہا ہے: « قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ[سورۂ آل عمران، آیت:۳۱] اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، خدا بھی تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے»۔
شیطان وہ اکیلیی مخلوق ہے جس نےخدا کی نافرمانی کا ارادہ کیا اور اپنے تکبر اور غرور کی بناء پر خدا کی نافرمانی کی اور خدا کی دشمنی میں مشھور ہے( اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ خداوند متعال کی ذات اقدس اس مقام پر ہے کہ کسی موجود میں اتنی توانائی نہیں ہے کہ وہ اس سے دشمنی کرسکے)کیونکہ شیطان نے خدا کی نافرمانی کی اس لئے وہ خدا کے دشمنوں میں سے ہے اور اب جو بھی شیطان کی پیروری کریگا اسکا شمار بھی خدا کی نافرمانی کرنے والوں میں ہوگا، جیسا کے خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے: « يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ[سورۂ بقرہ، آیت:۲۰۸] ایمان والو! تم سب مکمل طریقہ سے اسلام میں داخل ہوجاؤ اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے»۔
اسی لئے ہم آج کے دن دعا کررہے ہیں: « اَللَّهُمَّ اجْعَلْنى فیهِ مُحِبّاً لاَوْلِیآئِكَ وَ مُعادِیاً لاَعْدآئِكَ؛ خدایا مجھ کو اس میں اپنے دوستوں کا دوست اور اپنے دشمنوں کا دشمن قرار دے»۔
سنت میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر قول، فعل اور تقریر شامل ہے، یہ مسلمانوں کے نزدیک اعتقادات، عبادات اور احکامات کا دوسرا بڑا ماخذ ہے، جس کے بارے میں خداوند عالم ارشاد فرمارہاہے: « وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا[سورۂ حشر،آیت:۷] جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ»۔
اسی لئے ہم آج کے دن خدا سے دعا مانگ رہے ہیں : « مُسْتَنّاً بِسُنَّةِ خاتَمِ اَنْبیآئِكَ یا عاصِمَ قُلُوبِ النَّبِیّینَ؛ اور اپنے خاتم الانبیاء کی سنت کا پابند بنا دے، اے پیغمبروں کے دلوں کی حفاظت کرنے والے»۔
نتیجہ : اس حدیث کے ذریعہ آج کی بیان کو تمام کیا جارہا ہے جس میں امام جعفرصادق(علیہ السلام) ہمارے لئے خدا کی حقیقی محبت تک پہونچنے کے لئے بہترین راستہ کو بیان فرما رہے ہیں: « إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّ فِيكَ خَيْراً فَانْظُرْ إِلَى قَلْبِكَ فَإِنْ كَانَ يُحِبُّ أَهْلَ طَاعَةِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ يُبْغِضُ أَهْلَ مَعْصِيَتِهِ فَفِيكَ خَيْرٌ وَ اللَّهُ يُحِبُّكَ وَ إِذَا كَانَ يُبْغِضُ أَهْلَ طَاعَةِ اللَّهِ وَ يُحِبُّ أَهْلَ مَعْصِيَتِهِ فَلَيْسَ فِيكَ خَيْرٌ وَ اللَّهُ يُبْغِضُكَ وَ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَب[۳] اگر جاننا چاہو کہ تمہارے اندر خیر ہے (اچھےانسان ہو تو) اپنے قلب پر ایک نگاہ ڈالو اور دیکھو اگر تمہارا دل ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور اللہ کے نافرمانوں سے بيزار ہے اور انہیں دشمن سمجھتا ہو تو جان لو کہ تم اچھے انسان ہو اور اللہ بھی تم سے محبت کرتا ہے اور اگر تم اہل اطاعت کو دشمن رکھتے ہو اور اس کے دشمنوں سے محبت کرتے ہو تو جان لو کہ تمہارے اندر کچھ بھی نہیں ہے اور خدا بھی تمہیں دشمن رکھتا ہے، اور انسان ہمیشہ اس کے ساتھ ہے جس سے وہ زیادہ محبت کرتا ہے»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۶۔
[۲]۔ محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي،۱۴۰۳ق، ج۷۵، ۲۵۲.
[۳]۔ بحار الأنوار، ج۶۶، ص۲۴۷.