تحریر: طاہرعبداللہ
روزہ رکھنے کاحکم دوشعبان دو ہجری یعنی 28 جنوری 624ء کومدینہ میں نازل ہوا۔ رمضان المبارک وہ واحدمہینہ ہے جس کانام سورہ بقرہ کی آیت نمبر85(شہررمضان الذی انزل فیہ القران) میں آیاہے جس میں خداوند قدوس فرماتے ہیں کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرانِ مجید نازل کیاگیا۔ کتاب مستدرک الوسائل میں فرمانِ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ رمضان گناہوں کوجلادینے والامہینہ ہے اور خداوند عالم اِس ماہ میں اپنے بندوں کے گناہوں کوجلاکرراکھ کر دیتا ہے اورانہیں بخش دیتاہے۔ ماہِ رمضان عربی مہینوں کایہ 9واں مہینہ ہے جوتمام مہینوں سے افضل ہے اوراِسی مہینے میں سب راتوں سے افضل رات شبِ قدربھی موجودہے جوہزارمہینوں ( 38سال اور ماہ) سے بہترہے۔
روزہ کسی نہ کسی شکل اورنوعیت میں دنیاکے تقریباً تمام مذاہب، اقوام اوردیگرمخلوقات میں بھی پایاجاتاتھااورآج بھی پایاجاتاہے۔انسائیکلو پیڈیابریٹانیکا میں روزہ کوسبھی اقوام سے متعلق بتایاگیاہے۔ روزہ ایک ایسااَمرہے جوانسانی فطرت کے ساتھ بالکل سازگارہے۔ وہ قومیں جو آسمانی اَدیان کے تابع نہیں تھیں جیسے مصر،یونان اورروم کی قدیم اقوام یاہندوستان کے بت پرست لوگ یہ سارے کے سارے اپنے اپنے عقائد کے مطابق روزہ رکھتے تھے اورآج بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اِسلام کے علاوہ یہودیت اورعِیسائیت کی ابتدابھی سچے پیغمبروں سے ہوئی تھی لیکن باقی مذاہب کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ دراصل آسمانی ہدایت کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں یا پھرپیش کرنے والوں نے خدائی شریعت کے رنگ ڈھنگ میں نقالی کی ہے۔ بہرحال اِن تمام مذاہب میں جہاں اوربہت سی عبادات موجودہیں وہاں روزہ کی عبادت بھی تواترسے موجودہے۔
ہندومت تقریباًچارہزارسال پہلے ہندوستان میں اختیارکیاگیا۔ ہندومت میں ویکنتاایکاوشی وہ تہوارہے جس میں دن کوروزہ (برت) رکھاجاتاہے اوررات کوعبادت کی جاتی ہے۔ ہندوجوگی جب چلہ کشی کرتے ہیں تووہ چالیس دن تک روزہ رکھتے ہیں۔برہمن جوہندوئوں کی برترذات ہے ان پر ہرہندومہینے کی گیارہ تاریخ کوروزہ فرض ہے۔ اِس کے علاوہ ہندی مہینے کاتک کے ہرسوموارکوروزہ رکھاجاتاہے۔ ہندوسنیاسی بھی جب اپنے مقدس مقامات کی زیارت کیلئے جاتے ہیں تووہ روزہ میں ہوتے ہیں۔ ہندوئوں میں نئے اور پورے چاند کے دنوں میں بھی روزہ رکھنے کارواج ہے۔ اِس کے علاوہ قریبی عزیزیابزرگ کی وفات پربھی روزہ رکھنے کی رِیت پائی جاتی ہے۔ہندومت میں تذکیہءِ نفس اور کفارے کاروزہ بھی رکھاجاتاہے۔ ان تمام روزوں کے علاوہ منت، نذراورشکرانے کے روزوں کابھی رواج ہے۔ خاص بات یہ کہ ہندو عورتیں اپنے شوہروں کی درازیء عمرکیلئے بھی کڑواچوتھ کاروزہ رکھتی ہیں۔
پارسی مذہب جس کی اِبتداحضرت عیسٰی علیہ السلام سے چھ سو سال پہلے فارس (ایران)میں ہوئی تھی اس میں بھی روزہ رکھا جاتا ہے۔لیکن آج کل وہ زیادہ تر کھاناپیناترک نہیں کرتے بلکہ آنکھ، کان، زبان اورہاتھ وغیرہ سے گناہ نہ کرنے کی نیت کرکے روزہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام طورپرکھانا پینا ترک کیاجاتاہے لیکن آنکھ، کان، زبان اورہاتھ وغیرہ سے گناہوں سے بچنے کی کوشش نہیں کی جاتی جبکہ روزہ میں یہ ساری باتیں شامل ہیں۔
بدھ مت جس کا آغازبھی چھ سوسال قبلِ مسیح ہندوستان کے شمال مشرقی حصے میں مہاتما بودھ سے ہواتھا، کے وہ تیرہ اعمال جوخوشگوار زندگی گزارنے کاحصہ ہیں ان میں روزہ بھی شامل ہے۔ بودھ مت کے بھکشو(مذہبی پیشوا)کئی دنوں تک روزہ رکھتے ہیں اوراپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ گوتم بودھ کی برسی سے متصِل پہلے پانچ دن کے روزے رکھے جاتے ہیں یہ روزے بھکشومکمل رکھتے ہیں لیکن عوام جزوی روزہ رکھتے ہیں جس میں صرف گوشت کھانامنع ہوتاہے۔ بودھ مت میں عام پیروکاروں کوہرماہ چارروزے رکھ کرگناہوں کااعتراف اورتوبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے جبکہ چین کے علاقے تِبَتّ میں چاردن کاروزہ رکھاجاتاہے جس میں پہلے دودنوں میں شرائط کچھ نرم ہیں لیکن تیسرے روزشرائط اِتنی سخت ہوجاتی ہیں کہ تھوک نگلنابھی منع ہوتا ہے۔
مقدّس کتاب اِنجیل میں حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنے حواریون کوخوش دِلی سے روزہ رکھنے کی تاکیدکی ہے۔ عیسائی لوگ فرض روزوں کی ساتھ ساتھ نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتے ہیں۔ رومن کیتھولک عیسائیوں میں بدھ اورجمعہ کواب بھی روزہ رکھاجاتا ہے۔ اکثریہ ہوتاہے کہ چرچ کاپادری سال میں کسی بھی وقت روزہ رکھنے کاشیڈول جاری کرتاہے جوسال کے پہلے تین دن، سات دن، اکیس دن یامہینے پرمشتمل ہوتاہے۔ عیسائی لوگ اپنی مرضی اورسہولت کے مطابق شیڈول پسند کرکے روزے رکھتے ہیں۔ اِن روزوں کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں پانی پینے کی اجازت ہوتی ہے کیونکہ ان کے بقول پانی خوراک میں شامل نہیں ہے۔ لیکن آج کے جدیددَورمیں کچھ پادریوں نے روزہ رکھنے کوانسان کی مرضی پرچھوڑدیاہے اورفرض کی حیثیت بھی ساکت کردی ہے۔
مسلمانوں کے علاوہ یہودی بھی بہت زیادہ روزے رکھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہونے والی مقدس کتاب تورات میں کئی مقامات پرروزہ کی فرضِیّت کاحکم دیاگیاہے۔ یہودیوں میں تذکیہء نفس اورخیالات کی یکسوئی کیلئے روزہ رکھنے کی رَسم پائی جاتی ہے۔ مصیبت اورآفاتِ انسانی کے موقع پربھی یہودی روزہ رکھتے ہیں۔ بارشیں نہ ہورہی ہوں اورقحط سالی ہوتوبھی روزہ رکھاجاتاہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یومِ انتقال، یہودی مذہب کے بزرگان اوراپنے والدین کے یوم وفات پربھی عموماً روزہ رکھاجاتاہے۔
مندرجہ بالامعلومات پرہمیں حیران اورتعجب کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سورہ جمعہ کی آیت نمبر 1(یسَبح للہ مافی السموات ومافی الارض ) میں ربِ کائنات کاواضح فرمان ہے کہ آسمانوں اورزمین میں جوکچھ بھی ہے وہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ اب کوئی انسان یہ بتاسکتا ہے کہ کبھی درخت، پہاڑ، بادل، جانوراورپرندوں کواس نے تسبیح وتقدیس کرتے دیکھاہے۔ نہیں، کیونکہ یہ تمام مخلوقاتِ خداوندی تسبیحِ خدا توکرتی ہیں لیکن ان کی بناوٹ اورنوعیت ہم سے بالکل جدااورمختلف ہے اورساتھ ہی ہم ان کی عبادات کودیکھنے سے قاصرہیں۔ قرانِ کریم کی سورہ رحمٰن کی آیت نمبر 6 (والنجم والشجریسجدان)میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اوربیلیں اوردرخت (اللہ کو)سجدہ کررہے ہیں۔ اب کسی انسان نے بیلوں اوردرختوں کوکبھی سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ نہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں ایساکچھ دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں دی۔ ہم توقوسِ قزح کے صرف سات رنگوں کوہی دیکھ سکتے ہیں حالانکہ اِن رنگوں کے اوپراورنیچے اوررنگ بھی موجودہیں جن کودیکھنے کی اِس انسانی آنکھ میں سکت اوراہلیت نہیں۔ اِسی لئے توقوسِ قزح کے وہ رنگ جوبنفشی رنگ سے نیچے ہوتے ہیں ان کواَلٹراوائلِٹ کہاجاتاہے اورجورنگ سرخ رنگ سے اوپرہوتے ہیں ان کو اِنفرارَیڈ کہاجاتاہے۔
جہاں تک جِنّات کے روزہ رکھنے کامعاملہ ہے تووہ بھی اپنے اندازاورطریقے سے روزہ رکھتے ہیں کیونکہ ایک توسورہ الذاریات کی آیت نمبر6(وماخلقت الجن والانس الالیعبدون)میں ارشادِخداوندی ہے کہ اورمَیں نے جِن اورانسان کوصرف اپنی عبادت کیلئے پیداکیاہے۔ دوسراسورہ جِن کی آیت نمبر4 (وانامناالمسلموں ومناالقاسطون)میں جِنّات کہتے ہیں کہ اورہم میں سے کچھ مسلمان ہیں اورکچھ نافرمان ہیں۔ اِن آیات سے واضح ہوتاہے کہ جنات عبادت کیلئے پیداکئے گئے اوران میں سے کچھ مسلمان بھی ہیں۔ پس جومسلمان ہیں ان پر بحیثیت مسلمان تمام عبادات بجالانالازم اورناگزیرہے۔ فرشتوں کے حوالے سے سورہ الانبیا کی آیات نمبر 19اور 20(لایستکبرون عن عبادتہ ولا یستخسرون۔ یسبحون الیل والنھاریایفترون)میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ وہ عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اورنہ تھکتے ہیں۔ رات اوردِن کوتسبیح کرتے ہیں سستی نہیں کرتے۔ قرانِ مجیدسے فرشتوں کی عبادت توثابت ہے لیکن روایات میں ان کاروزہ رکھنا نہیں ملتاکیونکہ یہ بھوک اورپیاس سے بالاترہیں۔
معلوم نہیں اشرف المخلوقات انسان میں سے وہ کون سے لوگ ہیں جوربِ کائنات کے روزہ رکھنے کے فرمان اورحکم کوپَسِ پشت ڈال کر نہ صرف یہ کہ روزہ نہیں رکھتے بلکہ روزہ اورروزہ داروں کامذاق بھی اڑاتے ہیں۔ ایسے ہی ناشکری، نافرمان اوربدبخت انسان کیلئے اللہ تعالی کانعمتوں، رحمتوں اوربرکتوں بھرا مہینہ جاتے جاتے یہ کہتاجاتا ہے کہ افسوس ہے ایسے انسان پر جس نے ربِ دوجہاں کی طرف سے بھیجے گئے مجھ جیسے مہربان مہینے کواپنے درمیان پایا لیکن میرے فیوض اوربرکات سے فائدہ نہ اٹھایا۔ پھربھی اِس فانی دنیامیں رب تعالیٰ کے ایسے فرماں بردارنیک بندے بھی موجودہیں جوماہِ رمضان کی آمدپرخوش ہوتے ہیں اوراس کی رخصتی پربہت پریشان ہو جاتے ہیں۔
پس ہم سب کورمضان المبارک کاخوش دِلی سے اِستقبال کرناچاہیے اوراپنی دنیاوی واخروی بھلائی اوربہتری کیلئے تمام تر بہانوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے خداوندِعالَم کے اِس فرمان بلکہ ہرفرمان پرسرخم کردیناچاہیے۔