رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطی کے مسائل کے ماہر اور سنئیر امریکی صحافی مارک بروزینسکی نے جمعرات کو اپنی ایک گفتگو میں کہا : شام کے تازہ ترین حالات اور صدر بشار الاسد کے حامیوں کی پوزیشن مستحکم ہونے سے واشنگٹن پریشانی میں مبتلا ہے اور امریکی قیادت شامی کو بحران سے نکالنے پر مجبور ہوگئی ہے۔
اس موقع پر انہوں نے کہا : امریکہ اب بھی اپنے جارحانہ انداز کو برقرار کرتے ہوئے شامی صدر بشار الاسد کو طاقت سے ہٹانے کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ صدر الاسد کے حامیوں کی طاقت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
مارک بروزینسکی نے کہا : عراق اور شام میں داعش دہشتگردوں کی شکست اور ایران،روس کے درمیان بڑہتے ہوئے انسداد دہشتگردی تعاون سے شام کی پوزیشن مستحکم اور امریکی مؤقف کمزور ہوا ہے، اس لئے امریکہ اس تعاون کے خلاف سازش کر رہا ہے۔
انہوں نے بیان کیا : گزشتہ چار سالوں کے دوران امریکہ نے شام کے خلاف مختلف سازشیں کیں بالخصوص شامی حکومت پر کیمیائی ہتہیاروں کے استعمال کا الزام لگایا جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ شام جو مغربی غلبہ کے خلاف فرنٹ محاذ پر مزاحمت کرنے والا ملک ہے، اس کو تقسیم کیا جائے۔
مارک بروزینسکی نے تاکید کرتے ہوئے کہا : صدر بشار الاسد کی مزاحمت، حکومتی اور مقامی فورسز کی حمایت بالخصوص علاقائی ممالک بشمول لبنان، ایران اور روس کی بہرپور حمایت کی وجہ سے امریکہ کو شام میں شکست ہوگئی ہے۔