01 September 2016 - 18:32
News ID: 422959
فونت
پریس ٹی وی کے ساتھ گفت و گو میں الکعبی؛
سیکریٹری جنرل النُجَباء اسلامی مزاحمت تحریک: الرمادی کی آزادی کے لئے ہونے والی کاروائی میں امریکی جنگی طیاروں نے اس شہر کا ۹۰ فیصد حصہ ویراں کردیا۔
شیخ اکرم الکعبی

 

 

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری جنرل النُجَباء اسلامی مزاحمت تحریک شیخ اکرم الکعبی نے "پریس ٹی" انگریزی نیوز چینل کے ساتھ خصوصی مکالمے میں اپنی تحریک کا تعارف کراتے ہوئے کہا : النُجَباء اسلامی مزاحمت تحریک کا عسکری شعبہ ۳ بریگیڈوں پر مشتمل ہے اور ہر بریگیڈ ۳۰۰۰ افراد پر مشتمل ہے؛ "عمار یاسر بریگیڈ" شام کے شہر "حلب" میں تعینات ہے، اور دوسرے دو بریگیڈ ـ یعنی ۱۲ بریگیڈ اور ۳۰ بریگیڈ ـ عراق میں سرگرم عمل ہیں۔ عراق اور شام میں النُجَباء کے کل ۱۰۰۰۰ فوجی اور دیگر کارکن تعینات ہیں تاہم ضروری مواقع کے لئے ہزاروں افراد رضاکار مجاہدین کے عنوان سے النُجَباء مزاحمت تحریک میں شامل ہوجاتے ہیں۔

حجت الاسلام والمسلمین شیخ اکرم الکعبی نے النُجَباء اسلامی مزاحمت تحریک میں اہل سنت کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اہل سنت کے مجاہدین افسر اور جوان کے طور پر ۳۰ بریگیڈ میں موجود ہیں جو ہمارے دوش بدوش فلوجہ اور سامراء کی کاروائیوں میں، داعش کے خلاف لڑے۔ گوکہ عراق میں بعض سیاستدانوں کی طرف سے فرقہ وارانہ مسائل کھڑے کئے جاتے ہیں لیکن ہم عراق میں داعش کے مد مقابل سنیوں، عیسائیوں اور ایزدیوں کا دفاع اور تحفظ کرتے ہیں۔

انھوں نے تمام مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کو مسلمانوں کے لئے سرخ لکیر قرار دیا اور کہا: داعش نے نہ صرف اہل تشیّع کے مقدسات پر حملے کئے بلکہ مختلف ممالک میں اہل سنت کے مقدسات پر بھی حملہ آور ہوئی ہے؛ اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی مقدسات کی توہین کو سرخ لکیر قرار دیا ہے اور اسی حوالے سے داعش کے خلاف جنگ میں ہماری ہمہ جہت حمایت بھی کی ہے عراق اور شام میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ہمارے اور ایران کے درمیان بہت اعلی سطحی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

عراقی رضاکار فورس (الحشد الشعبی) کے اس سینئر کمانڈر نے مختلف ممالک کی طرف سے دہشت گرد ٹولوں کی ہمہ جہت مدد و حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: برطانیہ اور فرانس سمیت دنیا کے ۱۴۰ ممالک کے دہشت گرد شام اور عراق می دہشت گردانہ کاروائیوں میں مصروف عمل ہیں، اور ان دو ملکوں میں مصروف عمل دہشت گردوں کو مغربی اور عرب ممالک کی مدد و حمایت حاصل ہے؛ اور سعودی عرب اور ازبکستان کے دہشت گردوں کی عراق اور شام میں گرفتاری کے بعد یہ حقیقت ہمارے لئے ثابت اور عیاں ہوچکی ہے۔

شیخ اکرم الکعبی نے خطے میں سعودی عرب کے منفی کردار پر زور دیتے ہوئے کہا: خطے میں ہمارا ایک مسئلہ، نجد و حجاز میں وہابی حکومت ہے جس کی تاسیس کے لئے ہزاروں شیعہ اور سنی مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ بعض عرب اور مغربی ممالک علاقے میں دہشت گردوں کی حمایت کررہے ہیں، حالانکہ اہل سنت کے اکثر علماء داعش اور جبہۃ النصرہ کے دہشت گردوں کو خوارج کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا: داعش کے حوالے سے امریکیوں کا رویہ دوہرا ہے وہ چاہتے ہیں کہ خطے میں اندرونی تنازعات اور جھگڑے جاری رہیں، اور وہ اسلام کو مسلم ممالک کے اندر سے نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ خطے میں امریکی دوہرا کردار ادا کررہے ہیں؛ ایک طرف سے وہ دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں اور دوسری طرف سے انسانی حقوق کے تحفظ اور داعش کے خلاف جنگ کا دعوی کرتے ہیں۔

النُجَباء اسلامی مزاحمت تحریک کے سیکریٹری جنرل نے امریکہ کی طرف سے دہشت گرد تنظیموں کی مدد و حمایت پر زور دیتے ہوئے کہا: شام میں "نورالدین زنگی" گروپ سمیت بہت سے دہشت گرد ٹولوں کو امریکہ کی ہمہ جہت مدد و حمایت حاصل ہے؛ نورالدین زنگی گروپ کے دہشت گردوں نے حالیہ ہفتوں کے دوران شام میں ایک بیمار فلسطینی لڑکے کو کیمروں کے سامنے ذبح کیا؛ امریکہ نے نہ صرف اس انسانیت سوز جرم کی مذمت نہیں کی بلکہ اس دہشت گرد ٹولے کی حمایت جاری رکھی۔

شیخ اکرم الکعبی نے مزید کہا: علاقے ـ بالخصوص عراق ـ میں دراندازی کے آغاز ہی سے امریکہ نے یہاں کے عوام کو نہ صرف کوئی خیر نہیں پہنچائی بلکہ جنگ اور تباہی و بربادی کو یہاں کی اقوام کے لئے اپنے ساتھ لایا ہے۔ داعش کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ کی سرکردگی میں قائم کردہ اتحاد کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرسکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ امریکی اتحاد داعش کو قلع قمع کرنے کے لئے نہیں بلکہ الحشد الشعبی اور داعش کے درمیان عسکری توازن بحال کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ امریکہ کسی صورت میں بھی داعش کے خاتمے کے درپے نہیں ہے اور یہ ملک اس دہشت گرد ٹولے کی مدد کررہا ہے۔

انھوں نے کہا: ایران عراق کا حامی ہے اور اس ملک نے عراق پر داعش کے حملے کے وقت ایک تاریخی موقف اپنایا اور الحشد الشعبی کی مدد کی، جبکہ امریکہ نے داعش کے خلاف جنگ کا محض دعوی کیا۔ الرمادی شہر کو آزاد کرانے کے لئے ہونے والی کاروائی میں کامیابی کے سلسلے میں اس نکتے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ امریکی جنگی طیاروں نے اس شہر کا ۹۰ فیصد حصہ نیست و نابود کردیا۔

عراقی رضاکار فورس (الحشد الشعبی) کے سینئر کمانڈر نے شام میں عراقی افواج کے داخلے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: ہمیں یقین واثق ہے کہ موصل کی آزادی کے بعد عراقی افواج کو ـ عراق کی قومی سلامتی کی خاطر ـ باضابطہ طور پر شام کی سرزمین کی طرف عزیمت کرنا چاہئے اور یہ کام عراق اور شام کی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی سے انجام پانا چاہئے تا کہ ہماری افواج کرکے سرحدی شہروں "الرقہ" اور "دیر الزور" کو داعش سے آزاد کرادیں کیونکہ شہر رقہ دہشت گرد داعش کا دارالحکومت ہے۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬