رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران شام سے متعلق ماسکو کے سہ فریقی سمجھوتے کے ایک اہم فریق کی حیثیت سے اس پر عمل درآمد پر زور دیتا ہے اور ترکی کے حکام سے، کہ جن کا ملک اس سمجھوتے کا فریق ہے، یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ ایسے موقف اختیار نہ کریں جو حقائق اور معاہدے کے منافی ہوں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ترکی، شام میں پائیدار جنگ بندی اور اس ملک میں قیام امن کے لئے سیاسی بات چیت کا راستہ ہموار کئے جانے میں مخلص ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ مسلح گروہوں کے خلاف، جو جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کارروائی کریں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ترکی نے اس بات کی ضمانت لی ہے کہ مسلح گروہ جنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں کریں گے اس لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلح گروہوں کے اقدامات پر نظر رکھے اور حقائق کے منافی موقف نہ اپنائے اور نہ ہی دیگر فریقوں پر بے بنیاد الزامات عائد کرے۔
اسلامی جمہوریہ ایران محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ترک حکام کے غیرتعمیری بیانات، شام کے بحران کو مزید پیچیدہ کریں گے اور اس صورتحال کو سیاسی ذریعے سے حل کرنے کی راہ میں بھی مشکلات پیدا ہوگی ۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ شام میں موجود حکومت مخالف مسلح دہشت گرد، جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ٹھوس ثبوت و شواہد کے مطابق جنگ بندی پر عمل درآمد کے اگلے ہی دن مخالف مسلح گروہوں نے پینتالیس بار سے زائد خلاف ورزی کی ہے۔
انہوں نے ترک حکام کو تجویز دی ہے کہ اگر وہ سہ فریقی عمل کے تحت شام میں پائیدار فائربندی کے خواہاں ہیں تو آپ کو چاہئے فائربندی کے قیام کے لئے مکمل یقین دہانی کرائیں اور خلاف ورزی کرنے والے گروہوں کے خلاف ایکشن لیں۔
ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران، کہ جس نے ابھی تک جنگ بندی کو مستحکم بنانے اور شام کے بحران کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوششیں کی ہیں، آئندہ بھی یہ کوششیں جاری رکھے گا۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان ترک وزیرخارجہ مولود چاؤش اوغلو کے اس بیان کے بعد آیا ہے جس میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ شام کی حکومت کے مخالف مسلح گروہ، جنگ بندی پر عمل کر رہے ہیں اور ہم اسلامی جمہوریہ ایران سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ شامی حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ بھی جنگ بندی کی پابندی کرے۔
شام میں جمعہ تیس دسمبر سے جنگ بندی جاری ہے لیکن پچھلے چند روز کے دوران دہشت گردوں کے ذریعے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کی گئی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماسکو سمجھوتے کے فریقوں نے اس بات کی ذمہ داری قبول کی ہے کہ وہ متحارب فریقوں کو جنگ بندی کا پابند بنائیں گے اور ترکی نے مخالف مسلح گروہوں کے ذریعے جنگ بندی پر عمل کرانے کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن ترکی کے وزیر خارجہ کے تازہ بیان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترکی، ماسکو سمجھوتے کو بائی پاس کر رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ترکی کے پاس دو راستے ہیں ایک یہ کہ وہ ماسکو سمجھوتے کی پابندی کرے اور اپنی گذشتہ پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ شام کے بحران کے حل کی کوششوں کو، کہ جن کا ذکر ماسکو اور آستانہ سمجھوتوں کے مسودوں میں کیا گیا ہے، راستے سے منحرف کر دے۔
دوسری صورت میں سعودی عرب کے دباؤ میں آکر اگر ترکی امن کی کوششوں کو ناکام بنانے کی جانب قدم آگے بڑھاتا ہے تو صورت حال مزید پیچیدہ ہو جائے گی اور پھر نتیجے میں ترکی اور روس کے تعلقات جو ایک عرصے کے بعد نسبتا بہتر ہو رہے ہیں، دوبارہ خراب ہو جائیں گے اور ترکی کے اس ممکنہ یوٹرن سے خود انقرہ اور خاص طورپر ترکی کی حکمراں جماعت کو جہاں دہشت گردانہ اقدامات میں شدت آتی جا رہی ہے کافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آستانہ میں ہونے والے سربراہی اجلاس سے قبل ترک صدر رجب طیب اردوغان کے بیان سے بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو ایک بار پھر شام کے معاملات میں دخیل کرنا چاہتے ہیں۔ اردوغان نے اٹھائیس دسمبر کو کہا تھا کہ قطر اور سعود ی عرب کو بھی آستانہ سربراہی اجلاس میں شرکت کرنی چاہئے۔
درحقیقت جیسا کہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ترک وزیرخارجہ کے بیان کے ردعمل میں کہا ہے کہ ترک حکام کے غیر تعمیری بیانات سے فقط صورت حال مزید پیچیدہ ہو گی اور شام کے بحران کے سیاسی حل کی راہ میں مشکلات میں بھی اضافہ ہی ہو گا۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۸۳۸/