تحریر: سید ناصر شیرازی مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل، ایم ڈبلیو ایم
خواجہ آصف کے اعترافی بیان کے بعد بین الاقوامی خبررساں اداروں نے اپنا جنرل راحیل شریف کے اس 34 رکنی سعووی اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے تعیناتی کی تصدیق کردی ہے۔ یہ اتحاد بنیادی طور پر یمن پر حملے کیلئے بنایا گیا تھا اور بعد ازاں اسی کو مسلم دنیا کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے عسکری اتحاد کا نام دیا گیا۔ اس کا خالق اور مالک سعودی عرب اور بالخصوص سعودی ولی عہد سلمان ہے جو خطے میں اپنی انتہاپسندانہ پالیسی کی وجہ سے معروف ہے۔ اس تعیناتی نے جہاں راحیل شریف کے بطور آرمی چیف کردار پر بعض سوالات کا جواب دے دیا ہے، وہاں سعودی عرب کی پاکستانی امور میں مداخلت کو بھی واضح کردیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوری بعد سعودی شاہی خاندان خصوصی جہاز کا پاکستان سے راحیل شریف کو لیکر سعودی عرب پہنچانا، اس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ ایک دن کی بات نہیں تھی بلکہ کھچڑی بہت دیر سے پک رہی تھی۔ آل سعود راحیل شریف سے بہت سی ضمانتیں اور رعایتیں پہلے ہی حاصل کرچکے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آل سعودنے راحیل شریف کو ان خدمات کا صلہ اس نئے عہدے کی صورت میں دیا ہے۔ جس کے غبارے سے اس کے قیام سے پہلے ہی ہوا نکل چکی ہے۔ خواجہ آصف نے بھی اپنے بیان میں اس معاہدے کی تائید تو کردی ہے لیکن اس کی تفصیلات سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
سبکدوش ہونیوالے جنرل کو ریٹائرمنٹ کے دوسال بعد کسی ایسی نوکری کیلئے پہلے حکومتی اداروں سے اجازت لینے کی ضرورت پڑتی ہے، جو یقیناً آل سعود کے مطالبے پر جاری کی گئی ہوگی۔ 34رکنی اتحاد ایک عجیب سراب، دھوکہ اور مسلم دنیا کے ساتھ غداری کی علامت ہے کہ آج تک اس اتحاد نے مسئلہ فلسطین کے عسکری حل پر بات نہیں کی۔ اسرائیلی مظالم کے مقابلہ میں فلسطینیوں کی عسکری حمایت کا عندیہ نہیں دیا۔ اسرائیلی جارحیت کے شکار مسلم ممالک کی مدد کرنے کا اعلان نہیں کیا اور اردن، شام، لبنان اور مصر کی زمینوں پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے حوالے سے عسکری مدد کا کوئی اشارہ تک نہیں دیا۔ عالم اسلام کے قدیم ترین اور عظیم ترین مسئلہ آزادی مسجد اقصیٰ و بیت المقدس کیلئے کسی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا۔ تو پھر یہ اتحاد ہے کن مقاصد کے حصول کیلئے۔؟ مسلم ممالک میں بیرونی جارح قوتوں کی موجودگی بالخصوص امریکہ و اسرائیل کے اڈوں کے خاتمہ کیلئے بات تک نہیں کی گئی۔ مسلمانوں کی برما میں نسل کشی پر کسی جوابی عسکری اقدام کا اعلان نہیں کیا گیا، تو یہ آیا یہ اتحاد صرف سعودی اور اس کے اتحادیوں کے اہداف کے حصول کیلئے تیار کیا گیا ہے۔؟؟ تو پھر ایسے اتحاد میں پاکستان کی اس درجہ شمولیت انتہائی باعث تشویش اور ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش محسوس ہوتی ہے۔
بطور پاکستانی ہمارے لیے مسئلہ کشمیر انتہائی اہم ہے۔ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے اور پاکستان کی شہ رگ ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے مودی حکومت سے بے نظیر تعلقات کے بعد ان ممالک سے مسئلہ کشمیر میں کس طرح کی مدد کی بات بھی بعید نظر آتی ہے، جبکہ 34 رکنی اتحاد نے مسئلہ کشمیر کے متعلق اشارے کنائے میں بھی بات کرنے سے انکار کردیا ہے، تو پھر پاکستان کے سابق آرمی چیف کا وزن سعودی اتحاد کے پلڑے میں ڈال کر کس کی خدمت کی جا رہی ہے۔ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ راحیل شریف کو حق حاصل کہ وہ کوئی ملازمت کرے، لیکن حالیہ قٖضئیہ سادہ نہیں، بلکہ انتہائی اہم ہے۔ راحیل شریف بطور آرمی چیف ملک کے اہم ترین رازوں کے امین رہے ہیں۔ پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کی حفاظت سمیت دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے سرخیل رہے ہیں۔ کیا ان سب رازوں کو آل سعود کو منتقل کرکے وطن عزیز کے خلاف ایک نئی خیانت کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ راحیل شریف سمیت دیگر ذمہ داران نے ملکی رازوں اور ملکی شخصیات کا بہت کم قیمت پر سودا کیا ہے۔ بلی تھیلے سے باہرآتی جارہی ہے اور نواز حکومت کی کرپشن پر راحیل شریف کی خاموش حمایت، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کی پردہ داری اور ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کو سبوتاژ کرکے پاک چائینہ اکنامک کوریڈور پر کاری ضرب لگانے کی کوششوں پر موجود سوالات کے آسان جوابات ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کو سبوتاژ کرنے کیلئے اس سطح کی سازش کی جا سکتی تھی، جو اب آشکار ہو رہی ہے۔ راحٰل شریف کو مستقبل قریب میں ایسے بہت سے سوالات کے جواب دینا ہوں گے۔ تھوڑی سی روشنی اس نام نہاد اتحاد پر ڈالتے ہیں کہ جسے کسی صورت میں ایک باقاعدہ اور باضابطہ اتحاد امہ یا الائنس قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس اتحاد کے متعلق چند اہم نکات:
1۔ داعش کے خلاف جنگ لڑنے والے مسلم ممالک یعنی عراق، شام، ایران، لبنان وغیرہ اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ان کو شامل کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
2۔ داعش، القاعدہ، طالبان، النصرہ، بوکوحرام اور دیگر عالمی دہشت گرد گروہوں کے حامی، سہولت کار، خالق اور سپورٹر ممالک اپنی اسی پالیسی کے ساتھ صرف اس اتحاد کا حصہ ہیں، بلکہ اس کے پالیسی ساز بھی ہیں۔
3۔ اس اتحاد نے کشمیر اور فلسطین پر کوئی عسکری پالیسی دینے سے انکار کر دیا ہے۔
4۔ اس اتحاد میں شامل ممالک کی اکثریت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حامی ہے۔
5۔ اس اتحاد میں شامل اور فعال ممالک براہ راست امریکی بلاک کا حصہ اور اس کی پالیسی کے سہولت کار ہیں۔
6۔ اس اتحاد کا ضابطہ کار، اہداف غیر معینہ ہیں جبکہ اس کی سربراہی سعودی عرب کے پاس ہے ۔ جو یمن جیسے مسلم ممالک پر جارحیت کا مرتکب ہوا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ اتحاد امت مسلمہ کے خلاف استعمال ہوگا۔
7 ۔ یہ اتحاد خالصتاً فرقہ ورانہ بنیادوں پر قائم ہے اور فقہ جعفریہ کی اکثریت رکھنے والے ممالک اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔
جنرل راحیل شریف جو بطور آرمی چیف اداروں کو اپنی پروجیکشن کیلئے استعمال کرنے کے حوالہ سے معروف ہیں۔ آئی ایس پی آر کے کردار سمیت ملک بھر راحیل شریف کی شخصیت سازی کیلئے فوجی اداروں کا استعمال سب کے علم میں ہے۔ ان کی اس متنازعہ، فرقہ ورانہ، عسکری اتحاد کیلئے نامزدگی نے کئی سوالات بھی کھڑے کر دیئے ہیں۔ اس فیصلہ کا کم از کم نتیجہ ملک میں جاری شورش میں اضافہ، سی پیک کیلئے رکاوٹوں میں اضافہ، نیشنل ایکشن پلان کی تدفین سمیت ملکی سالمیت کیلئے سنگین خطرات کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ وطن عزیز کے سلامتی کے ذمہ داروں اور پاریمنٹ کو اس مسئلہ میں کردار ادا کرنے ضرورت ہے۔ بصورت دیگر یہ رجحان کہ ہمارے اہم جرنیل اور خفیہ اداروں کے سابق سربراہوں رقم اور کچھ دیگر منافع کے حصول کیلئے خود کو یو اے ای، قطر اور سعودی عرب کا نوکر بنا رہے ہیں۔ جس میں ہماری اپنی سلامتی کیلئے خطرہ موجود ہے۔
بس یہ کہتے ہوئے اپنی بات کو ختم کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص نئی ملازمت کیلئے کسی بڑی کمپنی میں انٹرویو دیتا ہے، تو فیصلہ میز پر موجود وہ فائل کرتی ہے کہ جس میں اس کا سابقہ تجربہ، فعالیت، کارکردگی اور معلومات کی تٖصیلات درج ہوتی ہیں۔ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد سعودی عسکری اتحاد کی سربراہی کی نوکری کیلئے جنرل راحیل شریف نے کیا فائل جمع کرائی ہوگی۔ کن تجربات، معلومات اور فعالیتوں کو اپنی کارکردگی میں شامل کیا ہوگا تاکہ اس نئی ملازمت کو حاصل کرسکیں اور سابقہ تجربات کو نئی ملازمت میں استعمال کرسکیں۔ وطن عزیز کے اہم ترین سلامتی کے اداروں میں کام کرنے کی معلومات اور کارکردگی کسی دوسرے ملک یا اتحاد کو منتقل کی جارہی ہے اور یہ کام قلیل رقم اور عارضی شہرت کے حصول کیلئے کیا جارہا ہے تو وطن سے اس سے بڑی خیانت اور کیا ہوگی۔؟ وطن وزیز میں محب وطن قوتوں، جماعتوں اور اداروں کو اس خیانت کے خلاف رائے ہموار کرنے اور اپنے غم و غصہ کے اظہار کیلئے میدان میں آنا ہوگا تاکہ ملک کے مستقبل کی حفاظت ممکن ہوسکے۔/۹۸۹/ ف۹۴۰