رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، مفسر عصر حضرت آیت الله جوادی آملی نے اپنے درس تفسیر قران کریم کے درس میں جو مسجد آعظم قم میں سیکڑوں طلاب و افاضل حوزہ علمیہ قم کی شرکت میں منعقد ہوا ، سوره مبارکه طور کی آخری آیات « أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ ترجمہ : یا یہ کوئی مکاری کرنا چاہتے ہیں تو یاد رکھو کہ کفار خود اپنی چال میں پھنس جانے والے ہیں» کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: مکر ھمیشہ برا نہیں ہے ، بعض آیتوں میں جو کہا گیا ہے کہ خدا مکر کرتا ہے تو وہ بد نہیں ہے ، بلکہ فریب اورچالبازی بذات خود بد ہے ، اگر کوئی کسی انسان اور اس کے عمل نیک کے درمیان حائل ہوجائے تو اسے مکر بد کہا جاتا ہے ، اور اگر کسی انسان کو پہونچے والے نقصان کو روکنے کا پروگرام بنایا جائے تو اسے مکر خوب کا نام دیا جاتا ہے ، حیلہ کے لفظی اور لغوی معنی حائل کے ہیں ، مگر چوں کہ زیادہ تر اسے منفی اور قبیح کام میں استفادہ کیا جاتا ہے لوگ اسے برا سمجھتے ہیں ۔
انہوں نے قران کریم کی عظمت و رفعت کی جانب اشارہ کیا اور کہا: قران کریم ایک ایسے گلاس کے مانند ہے جس کا دونوں دو نیم حصہ بھرا ہوا ہے ، البتہ ادھا حصہ قابل فھم ہے اور ادھا حصہ ناقابل فھم ہے ، جیسا کہ اس نے سوره مبارکه زخرف نے فرمایا کہ «إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ترجمہ : بیشک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو » یہ گلاس کا وہ ادھا حصہ ہے جو عربی مبین ہے اور تفسیر کے درس میں قابل فھم ہے ، مگر گلاس کا دوسرا حصہ جو ناقابل فھم ہے اس کا سوره زخرف کی آیات میں تذکرہ کیا گیا ہے « وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ ترجمہ: اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں نہایت بلند درجہ اور با حکمت کتاب ہے » یہ دوسرا حصہ «علی حکیم» ہے ، لھذا ائمہ معصومین کی بزم میں موجود اصحاب ھرگز یہ سوال نہیں کرتے تھے کہ یہ کس مقام پر تحریر ہے ۔
سرزمین قم ایران کے مشھور استاد نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہماری آرزو اور تمنا اهل بیت(ع) کی ناگفتہ بہ باتوں کو سمجھنا ہے کہا: ہماری یہ آرزو ہے کہ اهل بیت(ع) ہمیں ان خاص علوم کو سیکھنے اور سمجھںے کی توفیق عنایت کریں ، ہمیں اپنے شاگرد خاص میں شمار کریں ، جیسا کہ آپ اهل بیت(ع) نے خود فرمایا ہے کہ ان علوم کا جاننا ھر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ، آپ ہمیں ان علوم کا علم عطا کریں ۔
انہوں نے کہا: زیارت جامعه ، امامت و ولایت کی تفسیر ہے ، اگر حوزہ علمیہ میں اسے پڑھا جائے تو یقینا اهل بیت(ع) ہمیں وہ خاص علوم عطا کریں گے ، ہم یہ نہ سوچیں کہ زیارت جامعہ فقط پڑھنے کی چیز ہے بلکہ زیارت جامعہ مکاسب و کفایه و جواهر جیسی کتابوں کے مانند ہے ، ہم اس زیارت کی بنیاد پر خداوند متعال سے اس توفیق کی درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ان علوم کو عطا کرے جو کسی کو نہیں ملے ۔/۹۸۸/ ن۹۳۰/ ک۵۸۵