رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکا نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل سے کہا ہے کہ وہ اپنے ایک ذیلی ادارے کی اس رپورٹ کو واپس لے لے جس میں کہا گیا ہے کہ صیہونی حکومت نے فلسطینیوں پر ایک اپرتھائیڈ (نسل پرستانہ) نظام مسلط کردیا ہے ۔
مغربی ایشیا کے لئے اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نیکی ہیلی نے کہا کہ امریکا اس رپورٹ سے ناراض ہے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹرش کو چاہئے کہ وہ اس رپورٹ کو واپس لیں۔
امریکی مندوب نے کہا ہے کہ ایک ایسے ادارے کی طرف سے جس کے ارکان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے اس طرح کا پروپیگنڈہ غیر متوقع نہیں ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ پر اسرائیل مخالف رویّہ اپنانے کا الزام لگایا اور اس بات کا اعلان کیا کہ وہ امریکا کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں اسرائیل کا بھرپور دفاع کریں گی۔
واضح رہے کہ مغربی ایشیا کے لئے اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن نے بدھ کو اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل نے ایک نسل پرستانہ نظام قائم کرکے فلسطینیوں پر مکمل طور پر تسلط قائم کرلیا ہے۔
مذکورہ کمیشن نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی اداروں کی تحقیقات اور ٹھوس ثبوت و شواہد کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اپرتھائیڈ اور نسل پرستانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی ڈپٹی سکریٹری جنرل اور مغربی ایشیا کے لئے اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن کی سربراہ ریما خلف نے لبنان میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ رپورٹ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے جسے ایک بین الاقوامی ادارے نے جاری کیا ہے اور اس میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے حقوق کو پامال اور ان پر اپرتھائید نظام مسلط کیا ہے۔
انہوں نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ فلسطینیوں کی دربدری اور الگ الگ جگہوں میں ان کی تقسیم ایک اہم معاملہ ہے کہ جس کے ذریعے اسرائیل فلسطینیوں پر اپرتھائیڈ نظام مسلط کررہاہے کہا کہ اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے فلسطینی باشندے چار الگ الگ علاقوں مقبوضہ فلسطین، مشرقی بیت المقدس، غرب اردن اور غزہ پٹی اور یا پھر دیگر ملکوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
مغربی ایشیا کے لئے اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن میں مغربی ایشیا کے اٹھارہ رکن ممالک ممبر ہیں اور اس کمیشن کے قیام کا مقصد مغربی ایشیا کے ملکوں کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی حمایت کرناہے۔/۹۸۹/ ف۹۳۰/ ک۴۸۲