تحریر: طاہر یاسین طاہر
افغانوں کا قومی مزاج قبائلی ہے۔ اپنے اسی مزاج کے رنگ میں رنگے ہوئے افغان اپنے محسن پاکستان کو بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، جبکہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں محفوظ ہیں۔ ان دہشت گردوں کو کابل کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو تمام تر شواہد کے باوجود، جو پاکستان نے پیش کئے، کابل نے ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی؟ اس لئے کہ کابل ملا فضل اللہ سمیت اس کی کالعدم تنظیم اور کالعدم جماعت الاحرار وغیرہ کو اپنے اسٹریٹجک اثاثے سمجھتا ہے۔ گذشتہ تین دھائیوں سے افغانستان میں آگ و بارود کا کھیل جاری ہے۔ پوری ایک نسل ’’جہاد‘‘ کے نام پر بارود کا نوالہ بنی اور اب دوسری نسل جوان ہو کر اپنی تیسری نسل کی پرورش کر رہی ہے، جہاد کے لئے۔ وہ نام نہاد جہاد جس کا بیانیہ امریکہ نے ترتیب دے کر دنیا بھر کے انتہا پسندوں کو پاکستان کے راستے افغانستان داخل کرایا اور روس کو واپس جانا پڑا۔ امریکی ڈالروں، اسلحے اور امریکہ و پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی حکمت کاری ہی روس کی پسپائی کا اولین سبب ہے۔۔ دنیا بھر سے آنے والے انتہا پسندوں، جہادی جذبے سے سرشار جوانوں اور نیم پڑھے لکھے ملاؤں کے اشتراک سے ایسا بیانیہ ترتیب دیا گیا کہ پاکستان جہادی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ یہاں ہی سے اسلحہ، رقم اور پالیسی بنتی تھی۔
عربوں کی امداد سے کئی مدارس بنے اور ان میں جہادی کلچر کو پروان چڑھایا گیا۔ جہاد اسلام کا اہم ترین رکن ہے مگر اس کی تشریح و تفہیم نے کئی مغالطے پیدا کئے، جنہوں نے آگے چل کر القاعدہ، طالبان کی مختلف اقسام، داعش، النصرہ، بوکو حرام، جماعت الاحرار اور الشباب جیسی دہشت گرد تنظیموں کو جنم دیا۔ یہ وہی دور تھا جب پاکستان میں بھی فرقہ وارانہ شدت پسندی میں اضافہ ہوا، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں نے جڑ پکڑی۔ افغان مگر خود کو خواہ مخواہ "فاتح ماسکو" سمجھ کر فکری مغالطے کا شکار ہوئے اور دنیا بھر کو للکارنے لگے۔ فکری مغالطے فرد سے لے کر اقوام تک کو تباہ کر دیتے ہیں۔ کابل انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کابل میں قیام امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ حالانکہ طالبان کے امیر ملا عمر کی ہٹ دھرمی اور اسامہ بن لادن کی میزبانی ہی وہ وجہ ہے، جو افغانستان کو اس حال تک لے آئی۔ روس کی واپسی کے بعد اگرچہ امریکہ نے جہادی کمانڈروں کے سر سے دست شفقت اٹھا لیا تھا، مگر کوئی بھی قوم اپنے داخلی معاملات کا ذمہ دار اپنے پڑوسیوں کو قرار نہیں دے سکتی، یہ پرلے درجے کی بد دیانتی اور ریاستی فرائض سے غفلت کے مترادف ہے۔
حالیہ لاہور مال روڈ دھماکے اور پھر درگاہ شہباز قلندر کے احاطے میں ہونے والے خودکش حملے کی کڑیاں افغانستان سے مل رہی ہیں۔ درگاہ شہباز قلندر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی اور لاہور دھماکے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے۔ جماعت الاحرار کی قیادت افغانستان میں ہے اور کالعدم تحریک طالبان کی بھی۔ فکری اعتبار سے دونوں ایک ہی ہیں۔ داعش شام و عراق سے پسپائی کے بعد افغانستان کو اپنا مسکن بنا چکی ہے۔ گذشتہ دنوں ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے کہا تھا کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد بار بار پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، پاک افغان سرحد کی بندش عارضی ہے اور جلد ہی ضروری اقدامات اٹھانے کے بعد پاک افغان سرحد کو کھولا جائے گا۔ نفیس زکریا کا یہ بھی کہنا تھا کہ داعش ایک دہشت گرد تنظیم ہے، جو افغانستان میں موجود ہے۔ دہشت گردی کے متعدد واقعات کے بعد پاکستان نے افغانستان میں موجود 76 دہشت گردوں کی فہرست بھی افغان حکومت کے حوالے کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ یا تو انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے یا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ابھی تک مگر افغانستان نے نہ تو ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے اور نہ ہی ان دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
اس امر میں کلام نہیں کہ اگر افغانستان ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا، جو افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں تو پاکستان یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ سرحد پار سرجیکل اسٹرائیک کرے۔ پاکستان یہ حق بھی رکھتا ہے کہ طویل بارڈر کو سیل کر دے اور بارڈر کراسنگ پر ویزہ اور پاسپورٹ کی پابندی لازمی قرار دے۔ محض دونوں اطراف کے خاندانوں کی رشتہ داریوں کو جواز بنا کر کوئی ملک دوسرے ملک کے شہریوں کو ویزہ اور پاسپورٹ کی پابندی سے استثنٰی نہیں دے سکتا۔ پاکستان افغانوں کا محسن ہے، ایک حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ انہی کی وجہ سے ہمارا معاشرتی مزاج بھی تباہ ہوا ہے۔ ہیروئن، کلاشنکوف کلچر پاکستانی معاشرے کے لئے افغانوں کا خاص تحفہ ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان ابھی تک افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، مگر کابل ہے کہ ان دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے، جو پاکستان میں دہشت گردانہ حملے کرواتے ہیں۔
پاکستان کے لئے اپنی سلامتی اور اپنے عوام کے جان و مال کا تحفظ افغانوں کی سلامتی و تحفظ سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ لندن مذاکرات کوئی بڑا بریک تھرو نہیں لا سکے۔ وہ علماء جو کبھی افغان دفاع کونسل بناتے ہیں تو کبھی کوئی اور کونسل بنا کر پاکستان کے" دفاع" کو سڑکوں پر نکل آتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ افغانستان سے ہونے والے ان حملوں کے خلاف بھی سڑکوں پر آئیں، جو افغان سرزمین سے اور افغان فورسز کر رہی ہیں۔ یہ مگر ایسا نہیں کریں گے بلکہ ریاست پر دباؤ ڈالیں گے کہ بارڈر کھول دیا جائے۔ یہ کج کلاہ یہی سمجھتے ہیں کہ افغانستان "فاتحین" کا ملک ہے اور ہم ان کے ہم رکاب۔ آئندہ کا منظر نامہ بڑا حیرت افروز اور دل سوز ہے۔ داعش افغانستان میں ڈیرے ڈال چکی ہے، طالبان کے مختلف دھڑے پہلے ہی وہاں موجود ہیں۔ فکری رویئے سب کے ایک سے ہیں اور سارے ایک "نام نہاد عالمی خلافت" کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان و افغانستان کو مل کر دہشت گردوں کی تمام اقسام کے خلاف یکجا ہونا چاہیے۔ افغانستان مگر ملا فضل اللہ اور دیگر دہشت گردوں کو پناہ دے کر اپنے اور خطے کے لئے ایک بڑی مصیبت کی پرورش کر رہا ہے۔ یہی لوگ داعش کے ہم رکاب ہوکر انسان کشی کریں گے اور پاکستان و افغانستان لندن میں مذاکرات کرتے رہیں گے۔/۹۸۹/ ف۹۴۰
منبع : اسلام ٹائمز