رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے ماسکو میں بنگلادیش کے وزیر خارجہ عبدالحسن محمودعلی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر تےہوئے کہا کہ شام مخالف قرارداد کے متن میں صوبہ ادلب کے علاقے خان شیخون میں کیمیائی سانحے کے محل وقوع کے بارے میں تحقیقات کی ضرورت پر زور دینے کے بجائے شام کے تمام فوجی مراکز تک دسترسی کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
سرگئی لاؤروف نےدو ٹوک الفاظ میں کہا کہ مغربی ممالک اس علاقے میں کیمیائی حملے کے بارے میں تحقیقات سے بھاگ رہے ہیں۔
شام کے علاقے خان شیخون پر چار اپریل کو ہونے والے مشکوک کیمیائی حملے میں سو سے زیادہ افراد ہلاک اور تقریبا چار سو زخمی ہوگئے تھے۔
امریکی فوج نے اس کیمیائی حملے کے بہانے صوبہ حمص میں شام کے الشعیرات فضائی اڈے کو میزائلی حملوں کا نشانہ بنایا تھا کہ جس کے نتیجے میں کئی شامی شہری جاں بحق اور زخمی ہوگئے تھے۔
شامی حکام نے بارہا خان شیخون پر کیمیائی حملے کے الزام کو سختی کے ساتھ مسترد کیا ہے۔
دوسری جانب روس کے نائب وزیر خارجہ نے خان شیخون پر کیمیائی حملے کی تحقیقاتی کمیٹی میں ایران اور ترکی کی شمولیت کا مطالبہ کیا ہے۔
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے کہا کہ خان شیخون کے کیمیائی سانحے کی تحقیقات کے لئے عالمی ادارے کی تحقیقاتی کمیٹی میں شام میں قیام امن کے لئے آستانہ مذاکرات کے بانی کی حیثیت سے ایران اور ترکی کو بھی شامل کیا جائے۔
روس نے بدھ کی رات امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے خان شیخون شہر پر کیمیائی حملے کے بارے میں تحقیقات کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔
اگرچہ حکومت شام نے دوہزار چودہ میں اپنے پاس موجود تمام کیمیائی مواد، اقوام متحدہ اور کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے ادارے کے نمائندوں کے حوالے کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود واشنگٹن نے گذشتہ جمعرات کو خان شیخون کے کیمیائی سانحے میں حکومت شام کے ملوث ہونے کے بے بنیاد بہانے اس ملک پر انسٹھ میزائل برسائے۔
اس حملے کے سبب یہ خیال زور پکڑنے لگا کہ امریکہ فوجی طاقت کے ذریعے شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔/۹۸۹/ف۹۴۰/