رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، حرم حضرت معصومہ قم(س) کے شرعی مسائل کے ماہر حجت الاسلام محمود اکبری نے گذشتہ شب نماز مغربین کے درمیان شرعی احکام بیان کرتے ہوئے کہا کہ ماه رجب اور ماه شعبان خدا کی بندگی مہینہ ہے ، اس ماہ میں مومنین کو روزہ رکھنے کی خاص تاکید کی گئی ہے ۔
حجت الاسلام اکبری نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ دین نے اسلام نے مستحب روزے کے خاص آثار بیان کئے ہیں کہا: فقہی حوالے مستحب روزہ کی غروب سے کچھ دیر قبل بھی نیت کی جاسکتی ہے جبکہ واجب روزہ کے لئے ایسا نہیں ہے ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ مستحب روزہ توڑنے سے کفار گردن پر نہیں آتا ہے کہا: اگر روزہ دار مومن ، کسی مومن کا مہمان بن جائے ، تو اس سے پہلے کہ میزبان اس کے روزہ کی جانب متوجہ ہو اپنا روزہ توڑ دے ۔
حرم حضرت معصومہ قم(س) کے شرعی مسائل کے ماہر نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اگر مومن کسی روزہ دار مومن کو کھانے کی چیزیں پیش کرے تو ایسے مقام پر شرعی اور فقہی دلیلیں اس روزے کو توڑنا مستحب بتاتی ہیں کہا: اگر مومن کسی کا مہمان ہو اور میزبان اس کے روزہ رکھنے پر راضی نہ ہو تو فقہی حوالے سے مستحب روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔
انہوں نے مزید کہا: اگر کوئی خاتون مستحب روزہ رکھنا چاہتی ہو جبکہ روزہ شوھر کے حقوق کی ادائیگی میں آڑے ہو تو یہ مستحب روزہ اس خاتون کے لئے شرعا حرام ہے ۔
حجت الاسلام اکبری نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ جو روزہ ماں باپ کی اذیت و آزار کا سبب بنے وہ حرام ہے کہا: اگر والدین اپنے بچوں کو مستحب روزہ رکھنے سے منع کریں تو بچوں کے لئے روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔
واضح رہے کہ شریعت نے مستحب روزہ کے احکامات بیان کئے ہیں جن پر مومنین کی توجہ ضروری ہے ، اس سلسلے میں ولی امر مسلمین حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں « روزه ان لوگوں کا صحیح ہے جو مذکور شرائط کے تحت ہوں ، لہذا کافر ، پاگل ، بے ہوش ، مسافر ، حائض و نفسا کا روزہ باطل ہے نیز نقصان دہ روزہ ، بغیر نیت کا روزہ یا مفطرات روزہ کو عمدا انجام دینا روزہ کے باطل ہونے کا سبب ہے اس حوالے سے جس پر روزہ کی قضا ہو اس کا مستحب روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے » ۔
اس رپورٹ کے مطابق، رهبر معظم انقلاب اسلامی ، مکلف کی گردن پر واجب روزہ نہ ہونا مستحب روزہ کی شرط جانتے ہیں ، آپ اس حکم کی تفصیل میں فرماتے ہیں« جس کی گردن پر ماہ مبارک رمضان کے واجب روزہ کی قضا ہو وہ مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا حتی اگر واجب روزہ کی نیت کا وقت بھی ختم ہوگیا ہو تو بھی ، یعنی اگر ظھر کے بعد بھی مستحب روزہ کی نیت کرے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہے ، اور اگر بھولے سے مستحب روزہ رکھ لے اور ظھر کے بعد اسے یاد آئے تو اس کا مستحب روزہ باطل ہے ، البتہ اگر ظھر سے پہلے اسے یاد آجائے تو واجب روزہ کی نیت کر سکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہوگا » ۔
قابل ذکر ہے کہ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای مدظلہ العالی کے نظریہ کے مطابق، اگر انسان نہیں جانتا کہ آیا واجب روزہ اس کی گردن پر ہے یا نہیں اور اس نے بری الذمہ کی نیت سے روزہ رکھا ہے کہ جو واجب روزہ کی قضا اور مستحب دونوں کو شامل ہے تو اس کا روزہ واجب روزہ کی قضا شمار کیا جائے گا اور روزہ صحیح ہے » ۔ / ۹۸۸/ ۹۳۰/ ک۶۷۲