‫‫کیٹیگری‬ :
27 May 2017 - 14:30
News ID: 428263
فونت
اے معبود! میرا آج کا روزہ حقیقی روزے داروں جیسا قرار دے میری عبادت کوسچے عبادت گزاروں جیسی قرار دے آج مجھے غافل لوگوں جیسی نیند سے بیدار کردے اور آج میرے گناہ بخش دے اے جہانوں کے پالنے والے اورمجھ سے درگزر کراے گناہگاروں سے درگزر کرنے والے۔
رمضان کی دعا

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ صِیامِی فِیہِ صِیامَ الصَّائِمِینَ وَقِیامِی فِیہِ قِیامَ الْقائِمِینَ وَنَبِّھْنِی فِیہِ عَنْ نَوْمَةِ الْغافِلِینَ، وَھَبْ لِی جُرْمِی فِیہِ یَا إِلہَ الْعالَمِینَ، وَاعْفُ عَنِّی یَا عافِیاً عَنِ الْمُجْرِمِینَ [۱]

اے معبود! میرا آج کا روزہ حقیقی روزے داروں جیسا قرار دے میری عبادت کوسچے عبادت گزاروں جیسی قرار دے آج مجھے غافل لوگوں جیسی نیند سے بیدار کردے اور آج میرے گناہ بخش دے اے جہانوں کے پالنے والے اورمجھ سے درگزر کراے گناہگاروں سے درگزر کرنے والے۔

سب سے پیلے ہم اس دعا میں خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ صِیَامِی فِیهِ صِیَامَ الصَّائِمِینَ؛ خدایا ہمیں اس مہینہ میں روزہ داروں کی طرح روزہ رکھنے والوں میں قرار دے»، دعا کے اس فقرہ سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ سب کا روزہ ایک جیسا نہیں ہوتا بلکہ ہر شخص کا روزہ اسکے اعتبار سے ہوتا ہے، اسی لئے روزہ کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں:

 ۱۔ عام روزہ     ۲۔ خاص روزہ    ۳۔  خاص الخاص روزہ

عام روزہ: یہ وہی روزہ ہے جو تمام لوگ رکھتے ہیں، یہ روزہ صرف پیٹ کی حد تک محدود رہتا ہے, یعنی انسان بھوکا تو رہتا ہے لیکن حرام کاموں سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھتا۔

خاص روزہ: ایسا روزہ ہے جس میں انسان اپنے پیٹ کے ساتھ ساتھ تمام اعضاء و جوارح کا بھی روزہ رکھتا ہے۔ جیسا کہ  امام صادق(علیہ السلام ) اسکے بارے میں ارشاد فرمارہے ہیں: «جب روزہ رکھو تو اپنے کان، آنکھ،بال، جلد، ان سب کا روزہ رکھو»۔[۲]

خاص الخاص روزہ: یہ وہ روزہ ہے کہ جس میں روزہ دار  کے دل میں خدا  کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، اگر ماہ مبارک رمضان میں تمام کام صرف اور صرف خدا کے لئے ہونگے تو یہ روزہ محقق ہوگا اسی لئے ہم دعا میں پڑھتے ہیں: اللَّهُمَّ اجْعَلْ صِیَامِی فِیهِ صِیَامَ الصَّائِمِینَ۔

دوسری جگہ خداوند عالم  کی بارگاہ میں دعا کررہے ہیں کہ: «وَ قِیَامِی فِیهِ قِیَامَ الْقَائِمِینَ؛ خدایا ماہ مبارک رمضان میں میرے قیام کو قیام کرنے والوں کی طرح قرار دے»، یعنی جب میں نماز کے لئے کھڑا رہوں تو میرا قیام، قیام کرنے والوں کی طرح ہو، ''قائمین''  ان قیام کرنے والوں کو کہتے ہیں جو، جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو خدا کے خوف سے گریہ و زاری کرتے ہیں۔

اس دعا میں دوسری جگہ بارگاہ خداوندی میں دعا مانگ رہے ہیں کہ: «وَ نَبِّهْنِی فِیهِ عَنْ نَوْمَةِ الْغَافِلِینَ؛ مجھے خواب غفلت سے بیدار کردے»، یعنی اس مہینہ کی پہلی ہی تاریخ کو مجھے جگا دے تاکہ میں غفلت میں رہ کر خدا کی نافرمانی نہ کرو کیونکہ نہیں معلوم موت کب آجائے، اگر غفلت کی حالت میں موت آگئی تو ہم لوگ نقصان اٹھانے ولوں میں سے ہونگے۔

امیر المؤمنین حضرت علی(علیه‌السلام) اپنے ایک صحابی کو پیغام دیتے ہیں کہ: «لا تقل غدا بعد غد فانما هلک من کان قبلک با قامتهم علی الامانی و التسویف حتی اقامهم امرالله بغته و هم غافلون[۳] کل کے بعد کل نہ کہو  یقینا تم سے پہلے والے اپنی آرزؤں میں اور کل، کل کرتے رہے اور غفلت کی حالت میں تھے کہ اچانک اللہ کا حکم آیا اور وہ لوگ ہلاک ہوگئے‌»

اس حدیث کی روشنی میں یہ واضح ہوگیا کہ اکثر لوگ، خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں، ایسے خواب میں جو انکو خداوند عالم سے دور کررہا ہے، اسی لئے ماہ مبارک رمضان کی پہلے تاریخ کو ہم خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا کررہے ہیں کہ : نَبِّهْنِی فِیهِ عَنْ نَوْمَةِ الْغَافِلِینَ، وَ هَبْ لِی جُرْمِی فِیهِ یَا إِلَهَ الْعَالَمِینَ وَ اعْفُ عَنِّی یَا عَافِیاً عَنِ الْمُجْرِمِینَ؛ خدا یا  مجھے خواب غفلت سے بیدار کر اور اس مہینہ میں مجھے بخش دے، اے گناہگاروں کو بخشنے والے»۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 حوالے:

[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، مصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۳۔

[۲]۔ محمد ابن علی بابویہ،من لا یحضرہ الفقیہ، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ق،ج۳، ص۱۰۹۔

[۳]۔ محمد ابن یعقوب کلینی، اصول کافی، دارالکتب الاسلامی،۱۴۰۷ق،ج۲، ص۱۳۶۔

/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬