رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی مشھد مقدس سے رپورٹ کے مطابق، مراجع تقلید قم میں سے حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے «محاضرات فی فقہ القرآن الکریم» کے عنوان سے مدرسہ علمیہ نواب میں ہونے والی اپنی سلسلہ وار تفسیر قران کریم کی نشست میں سوره مبارکہ بقره کی 196 ویں آیت کی تفسیر کی ۔
اس مرجع تقلید نے آیت کریمہ «وَ أَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۔ ترجمہ : حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے تمام کرو اب اگر گرفتار ہوجاؤ تو جو قربانی ممکن ہو وہ دے دو ۔ » کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : تمام آیتوں میں «اتمام» «کامل کرنے» کے معنی میں ہے مگر عمر بن خطاب معتقد تھے کہ حج کو عمرہ سے الگ کردیا جائے اور اسی بنیاد پر «اتمام» کو «فرق» کے معنی میں استعمال کیا گیا ۔
انہوں نے مزید کہا: قران کریم نے حج کے احکام میں ان حاجیوں کے سلسلے میں جنہیں مکہ پہونچنے سے پہلے روک دیا گیا بیان کیا: اگر ان کا راستہ روک دیا گیا تو جہاں روکا گیا وہیں پر قربانی کریں ، اپنا سرتراشیں اور واپس لوٹ آئیں ، جیسا کہ رسول اسلام(ص) نے صلح حدیبہ کے وقت کیا ، آپ نے دشمن سے صلح کرنے کے بعد قربانی کی ، سرمڈایا اور واپس آگئے اور اگر حاجی مریض ہوگیا تو اپنے دوستوں کو کچھ رقم دے گا تاکہ وہ اس کی جانب سے مکہ میں قربانی کرے اور پھر اپنا سرمڈائے ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے یاد دہانی کی: قران کریم نے فرمایا « فَمَنْ کانَ مِنْکُمْ مَريضاً أَوْ بِهِ أَذيً مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُکٍ ۔ ترجمہ : اور جو تم میں سے مریض ہے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہے تو وہ روزہ یا صدقہ یا قربانی دے دے ۔ » یعنی مجبوری کی صورت میں حاجی قربانی سے پہلے اپنا سر مڈا سکتا ہے ، مگر کفار ادا کرے یعنی10 یا ۱6 روزے کفارے کے طور پر رکھے یا خدا کی راہ میں صدقہ دے یا قربانی کرے ۔
اس مرجع تقلید نے آخر میں بعض مومنین کی جانب قران کریم کے بعض احکامات فراموشی کے نذر کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : انسان سورہ بقرہ کی تلاوت کرتا ہے مگر اس سورہ میں پنہاں نکات سے غافل ہے ۔ /۹۸۸/ ن۹۳۰ / ک۴۳۹