اس بیان میں تاکید کی گئی ہے کہ اس میں دو رائے نہیں کہ اربیل کے شریف عوام کہ جنھوں نے داعش دہشت گرد گروہ کے مقابلے میں ایران کے پاسداران انقلاب اسلامی کی جانبازی کو ہرگز فراموش نہیں کیا ہے، اس قسم کے اقدامات سے بالکل مبّرا ہیں۔
ایران کے قونصل خانے کے بیان میں اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے آیا ہے کہ ایرانیوں اور ایران کے سفارتی نمائندہ دفتر کی حفاظت و پاسداری کی ذمہ داری عراقی کردستان کے علاقے کے حکام کے فرائض میں شامل ہے اور عراق کے کردستان، موصل، کرکوک کے سیاسی حکام، قبائلی سرداروں، یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور علمائے کرام، پارلیمانی اراکین اور عوام کی جانب سے اس حملے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے جس کی قدردانی کی جاتی ہے۔
عراق کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان میں اربیل میں ایران کے قونصل خانے پر سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کئے جانے والے حملے اور ایک دوست ملک کے قومی پرچم کی بے حرمتی کئے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔
عراق کے بیشتر حکام و سیاسی شخصیات اور عراقی عوام نے بھی اس دشمنانہ اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔
عراقی کردستان کے سوشل میڈیا نے بھی اعلان کیا ہے کہ اربیل میں ایران کے قونصل خانے پر حملہ کرنے والے عناصر ممکنہ طور پر مسعود بارزانی کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے طرفدار ہیں۔
عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے جب سے صوبے کرکوک اور اربیل و بغداد کے درمیان تنازعہ والے علاقوں میں سیکورٹی فراہم کئے جانے کی ہدایات جاری کی ہیں، عراقی کردستان کے علاقے کے سربراہ مسعود بارزانی سے وابستہ اور یا قریبی تعلقات رکھنے والے ذرائع ابلاغ، عراق کی سیکورٹی فورس اور ایران کے خلاف نادرست پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔
عراقی کردستان کی پیشمرگہ فورس نے جون دو ہزار چودہ میں عراق کے مختلف علاقوں پر داعش دہشت گرد گروہ کے حملوں سے پیدا ہونے والی بدامنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبے کرکوک کے بعض علاقوں منجملہ اس صوبے کے تیل کے کنؤوں پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ عراقی کے سیکورٹی اہلکاروں نے گذشتہ ہفتے پیر کے روز کرکوک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔