رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق تہران کے عارضی امام جمعہ اور حوزہ علمیہ امام خمینی (ره) کے متولی آیت الله کاظم صدیقی نے تہران میں آخر صفر کی ایام شہادت کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں بیان کیا : امام حسین علیہ السلام کا جنگ و قیام فوجی جنگ نہیں تھا بلکہ ثقافتی عمل تھا ۔
انہوں نے وضاحت کی : امام حسین علیہ السلام کا جنگ و قیام فوجی جنگ نہیں تھا بلکہ ثقافتی عمل تھا ۔ امام حسین علیہ السلام کو چاروں طرف سے خون پینے والے بھیڑیا ، حرام زادے اور بے رحم نے گھیر رکھا تھا کہ ان میں سے ایک قسم یہی داعشی تھے ۔
تہران کے امام جمعہ نے بیان کیا : داعش امریکی ، صیہونی ، عبری اور خطے کے دوسرے خائنوں کے ساتھ مل کر سازش کے ذریعہ مقاومت فرنٹ کو کمزور کر کے اسرائیل غاصب حکومت کے لئے تحفظی حصار قائم کرنے کی کوشش میں تھے ۔ داعش کا ایک فرماندار کہ جس کو شام کے صدر جمہور بشار اسد کی جگہ دی جانی تھی اس نے کہا تھا کہ ہم لوگ ایک اموی حکومت بنائے نگے لیکن اپنے ما قبل کے تجربہ کو دوبارہ تکرار نہیں کرے نگے ۔ یزید نے بنی ہاشم کو قتل کر دیا لیکن ان کی خواتین کو باقی چھوڑ دیا تھا لیکن ہم لوگ شیعی خواتین کو بھی قتل کرے نگے اور ان کی نسل پوری طرح سے ختم کر دے نگے ۔
انہوں نے بیان کیا : امام حسین علیہ السلام ایسے جانوروں کے مقابلہ میں تھے لیکن امام علیہ السلام نے وہاں بھی ہم لوگوں کو بتایا کہ ان کی تلوار انتقام کے لئے نہیں اٹھے گی بلکہ جنگ الہی حکم کو انجام دینے کے لئے ہے اسی وجہ سے وہ سب لوگ جو ان سے جنگ کر رہے تھے ان پر تلوار نہیں چلاتے تھے بلکہ بعض کو تلوار کے نیچے سے چھوڑ دیتے تھے کیوں کہ اس شخص کے نسل سے آئندہ لااله الا الله کہنے والے کو دیکھتے تھے کہ جو شیعہ کے پرچم کو اونچا رکھے گا اسی وجہ سے امام علیہ السلام کا جنگ ایک ثقافتی جنگ تھا ۔
تکبیر و تسلیم انسان کی ایجاد نہیں ہے بلکہ خداوند عالم کا حکم الہی احکامت کی اطاعت و بندگی کے لئے ہے
آیت الله صدیقی نے بیان کیا : امام کی نماز اور جنگ کے درمیان آپس میں کوئی فرق نہیں ہے اور ہر دونوں کے ابتدا میں تکبیر اور اختمام میں دو تسلیم تھا ۔ امام کی طرف سے جنگ کا آغاز اور اختمام دونوں خداوند عالم کے حکم سے تھا ۔ تکبیر و تسلیم انسان کی ایجاد نہیں ہے بلکہ خداوند عالم کا حکم الہی احکامت کی اطاعت و بندگی کے لئے ہے ۔
انہوں نے وضاحت کی : زیارت اربعین کی عنایت کے ساتھ ، امام حسین علیہ السلام کی تلوار ہدایت اور نجات تھا ۔ امام حسین علیہ السلام کے اقدام میں خداوند عالم کا غضب بھی دیکھا جا سکتا ہے اور خداوند عالم کی معافی و رحم بھی ؛ امام حسین علیہ السلام جنگ اور اپنے عزیزوں کے داغ پر صبر کر کے ہم لوگوں کو عزت و صبر و عفت اور اقدار کا درس دیا ہے اور نمونہ پیش کیا ہے ۔
امام حسین علیہ السلام کی عاشورائی تحریک خلقت کے زمانہ سے ظہور کے زمانہ تک جاری رہے گا
تہران کے امام جمعہ نے بیان کیا : امام حسین علیہ السلام کی عاشورائی تحریک خلقت کے زمانہ سے ظہور کے زمانہ تک جاری رہے گا اور کربلا کے شہدا افضل شہدا میں سے ہیں یعنی جو لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ جنگ میں شہید ہوئے ہیں ان کا مقام کربلا کے شہدا کے مقام جیسا نہیں ہے ۔
آیت الله صدیقی نے اظہار کیا : جو لوگ امام زمانہ عج کے ظہور کے وقت ان کے رکاب میں اپنے خون میں غوطہ لگائے نگے ان کا درجہ بھی کربلا کے شہیدا جیسا نہیں ہوگا کیوںکہ کربلا کے شہدا نے رضا الہی کے خالص انگیزہ کے ساتھ اور نہ کہ بہشت کے حصول کے لئے اپنی جان بغیر کسی امید کے قربان کی ہے ۔ /۹۸۹/ف۹۷۰/