مصر کے مفکر محمود دحروج نے رسا نیوز ایجنسی کے عالمی بخش کے رپورٹر کے ساتھ گفت و گو میں اس ملک کے دینی و حکومتی ساخت میں نفوذ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : وہابیت مصر کے دینی و حکومتی امور کے تمام بخش میں نفوذ کر چکا ہے اور نہ صرف الازہر جو اہل سنت فکر کے مرکز کے عنوان سے ہے بلکہ حکام اور حکومتی مقامات میں بھی وہابیت نے اپنی بنیاد ڈال دی ہے ۔ حقیقت میں مصر میں وہابیت کا نفوذ و رشد حکومت کی حمایت کی وجہ سے انجام پاتا ہے ۔ یہ حکومت ہے کہ جو وہابیت کی تبلیغ و ترویج کی اجازت دیتا ہے ۔
انہوں نے وضاحت کی : خطے میں وہابیت کے پھیلانے میں حکومت کی حمایت کا ایک نمونہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔ جس علاقے میں زندگی بسر کرتا ہوں سن ۱۹۸۹ ء میں جب ہم قید سے آزاد ہوئے تو دیکھا کہ کئی وہابیوں کی نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں ۔ اور ہر مسجد میں ایک تشدد پسند و اتنہا پسند وہابی امام جماعت کے عنوان سے فعالیت کر رہا ہے اور وہاں سے شیعوں اور تشیع کے خلاف کئی عدد کتاب و مجلات کی اشاعت ہوتی ہے ۔
تمام دینی و حکومتی ساخت میں وہابیت کا نفوذ
مصر کے مفکر نے سعودی عرب کی طرف سے مصر حکومت کی مالی امداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : معاشی مشکلات اور معاشرے میں غربت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے کافی مقدار میں مالی امداد حاصل کرنے کے عوض میں وہابیت کو کھلے عالم فعالیت کی اجازت دے رکھی ہے ۔ وہابیوں کی تمام کتابیں لائیبریری میں رکھی گئی ہیں اور مفت میں یہ کتابیں عوام میں باٹی جا رہی ہیں اور کوئی شخص یا کوئی بھی پارٹی بغیر حکومت کی حمایت کے اس وہابی فکر سے مقابلہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے ۔
محمود دحروج نے اپنی گفت و گو کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا : افسوس کی بات ہے کہ مصر میں اہل سنت کی زیادہ تر ثقافت وہابی ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام عربی ممالک کی ثقافت وہابی ہو چکی ہے یہاں تک کہ بہت سارے حکومتی حکام نے وہابی فکر کو قبول کیا ہے نہ صرف حکومت بلکہ الازہر میں بھی یہ تحریک نفوذ کر چکی ہے ۔ اس وقت مصر میں شدید طور سے ثقافتی انقلاب کی ضرورت ہے اور یہ اس وقت انجام پا سکتا ہے کہ سب سے پہلے حکومت اس میدان میں آئے اور حقیقی اسلامی ثقافت کی فعالیت کے لئے زمینہ ہمواہ کرے اور دوم سعودیوں کی مالی و اقتصادی تسلط کو ختم کرے ۔
مصر کے سیاسی فعال نے اپنے بیان میں وہابیت کے مسئلہ میں شیخ الازہر کے نقطہ نظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : اس کے با وجود کے دنیا کے تمام لوگ اور با فہم افرد کے لئے یہ واضح ہو چکا ہے کہ دنیا میں دہشت گردی و تشدد اور انتہا پسندی کو پھیلانے میں اصلی کردار وہابی فکر کی ہے لیکن پھر بھی شیخ الازہر عالمی دہشت گردی کی نسبت وہابی فکر سے دینے میں دوری اختیار کی ہے اور سعودی عرب کو قصور وار نہیں مانتے ہیں ۔
انہوں نے تاکید کی : جہاں تک شیخ الازہر اور بہت ہی کم تعداد میں الازہر کے علما کی فکری تمایل صوفیسم کی طرف ہے لیکن یہ فکر بھی وہابیت کے زہریلے فضا میں سالم نہیں بچا ہے اور وہابی فکر و نظریہ میں آلودہ ہو چکا ہے کیوں کہ الازہر بھی سعودی عرب سے فراوان مالی مدد حاصل کرتا ہے ۔ جب اصول الدین کالج کے سربراہ سے سوال ہوتا ہے کہ بحرین کے انقلاب کے سلسلہ میں آپ کا نظریہ کیا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ انقلاب نہیں ہے کیوں کہ وہ لوگ شیعہ ہیں ۔ دیکھے کہاں تک علماء و حکام میں وہابی فکر نفوذ کر چکا ہے ۔/۹۸۹/ف۹۷۰/