رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم اور یونیورسیٹی کے مشہور و معروف استاد حجت الاسلام و المسلمین ناصر رفیعی نے روضہ مبارک حضرت معصومہ قم (س) کے زائرین اور نماز مغرب و عشاء میں شریک نمازیوں کے درمیان امام خمینی (ره) ہال میں منعقدہ اپنی تقریر میں حقیقی ایمان کے مختلف پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : مسلسل تاریخ اسلام میں مشاہدہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اسلام کے لباس میں دین کے دشمنوں سے دوستی کا منصوبہ بنایا اور دین مبین اسلام کو خطرے سے روبرو کیا ۔
روضہ مبارک حضرت معصومہ قم (س) کے مقرر نے دین داری کی سب سے اہم بنیادی معیار میں سے ایک اسلام کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرنا جانا ہے اور بیان کیا : بعض مسلمان جو اسلام کے دشمنون سے دوستی کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ، اصل میں وہ خداوند عالم پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ، اس کے مطابق اگر حضرت زهرا سلام الله علیها نے تاریخ کے حساس ترین موقع پر اس سے پردہ نہ اٹھایا ہوتا تو آج دین اسلام اور تشیع مذہب کا وجود نہ ہوتا ۔
جامعہ المصطفی العالمیہ کے فیکلیٹی ممبر نے اس تاکید کے ساتھ کہ شیعہ کی حقیقی شناخت ایام فاطمیہ میں ثابت ہو جاتی ہے کہا : حوزات علمیہ اور علماء کی سب سے بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ « حضرت فاطمہ الزهرا سلام الله علیها اور امیرمؤمنین علی علیہ السلام پر جو ظلم و جنایت رونما ہوئے ہیں اسے لوگوں تک پہوچائیں تا کہ سب لوگ جان لیں کہ کن لوگوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی کو شہید کیا ہے ۔ »
حوزہ علمیہ قم اور یونیورسیٹی کے مشہور و معروف استاد نے اسلام کی متحدہ قوم کے مسئلہ وحدت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : علماء و خطباء و دینی اصول کے مبلغین توجہ رکھیں کہ حضرت فاطمۃ الزهرا (س) کے مقدس وجود پر ڈھائے گئے ظلم کے مطابق واقعات کو بیان کرنا اتحاد کے موضوع کو نقصان نہیں پہوچاتا ہے ۔ بی بی دو عالم پر ہوئے مظالم تاریخ کی معتبر کتابوں میں فریقین کی طرف سے بیان کئے گئے ہیں، علماء خطباء کو چاہیئے کہ سلیقہ بیان سے کام لیں ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : مومنوں کو توجہ رکھنی چاہیئے کہ حضرت فاطمہ الزهرا (س) نے دشمن شناسی کی بہت تاکید کی ہے ؛ یہ ایسے حالت میں ہے کہ خود بی بی دو عالم کی شہادت اسلام دشمنی سے مقابلہ میں جو کہ غدیر کے واقعہ کو جھٹلا رہے تھے پیش آئی ہے ۔
حجت الاسلام والمسلمین رفیعی نے اس بیان کے ساتھ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے درمیان نفاق کی بیج رشد کی ، بیان کیا : امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام دین مبین اسلام کی حفاظت کے بخاطر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے اجازت نہیں رکھتے تھے کہ تلوار اٹھائیں اور اپنے جق کے حصول کے لئے اقدام کریں ، یہ ایسے حالت میں ہے کہ خود امام عالی مقام سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ « اگر میں غدیر سے دفاع کے لئے قیام کرتا تو اس کے بعد اسلام کا نام باقی نہیں رہتا ۔ »
جامعہ المصطفی العالمیہ کے فیکلیٹی ممبر نے حضرت فاطمۃ الزهرا (س) کی طرف سے خطبہ فدکیہ پیش کرنے کی تحریک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : تاریخ کی حقیقت کو سمجھنے و درک کرنے کے لئے خطبہ فدکیہ کو غور سے مطالعہ کرنا چاہیئے ؛ کیوں کہ اس خطبہ میں بہت ہی باریک نکات پوشیدہ ہیں اور اگر مسلمان اس اہم نکات سے استفادہ کریں تو مسلمانوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ہمہش اسے کامیابی حاصل ہوگی ۔/۹۸۹/ف۹۷۰/