رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان اور ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی نائب صدرحجت الاسلام قاضی نیازحسین نقوی نے کہا ہے کہ ہم عظیم اسلامی ثقافتی ورثے کے امین ہیں، اسلام میں شرعی ضابطہ کے علاوہ لڑکے، لڑکی کی دوستی کا کوئی تصور نہیں، قرآنی احکام کی رو سے عورت کے چلنے میں بھی حددرجہ شریفانہ انداز اپنانے کا حکم ہے، میاں بیوی بھی سرِعام اظہار محبت نہیں کر سکتے، ویلنٹائن ڈے جیسی غیر شریفانہ مغربی ثقافتی رسومات کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں عورتوں کیخلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے اسلام کی رو سے اپنے پیاروں سے اظہار محبت ایک دن نہیں بلکہ پورا سال ہونا چاہیے، شرافت، عفت، حیا عورت کو باوقار بناتی ہے جبکہ شرم و حیا کے منافی رویے اسے نظروں سے گرا دیتے ہیں، عورت، مرد کا اختلاط فقط میاں بیوی ہونے کی صورت میں ہی جائز ہے، نامحرم سے فقط ضروری حد تک اسلامی حدود و قیود میں ہی بات چیت ہو سکتی ہے، میڈیا الٰہی احکامات، ملکی قوانین، اسلامی تہذیب اور مشرقی روایات کے تناظر میں ویلنٹائن ڈے کے نام پر بے حیائی کی حوصلہ شکنی کرے۔
حجت الاسلام نقوی نے لاہور میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فکری لحاظ سے محروم معاشرے ہی اغیار کی نقل کرتے ہیں، وطن عزیز بحمد اللہ شاندار اسلامی اور مشرقی روایات کا امین ہے مگر افسوس چند سالوں سے اسلامی طرز معاشرت سے نا آشنا یا مادر پدر مہلک آزادی کے دلدادہ عناصر غیرشریفانہ رسومات کی ترویج کے درپے رہتے ہیں، جنرل مشرف کے دور میں عورتوں اور مردوں کی مشترکہ ” میراتھن ریس“ سب کو یاد ہوگی جب قومی خزانے سے ” دوڑ میرے لاہور“ کے نہایت مہنگے اشتہارات اخبارات میں شائع کئے گئے جبکہ قرآن میں واضح حکم ہے کہ عورت زمین پر زور سے پاﺅں مار کر نہ چلے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب چند سالوں سے شرم و حیا کے منافی ویلنٹائن ڈے منانے کی ترغیب دی جا رہی ہے جو کہ شرم و حیا کی فطری انسانی سرشت کے منافی ہے۔ اسلام سمیت تمام الہٰی ادیان عفت وحیا کے قائل ہیں کیونکہ نامحرم عورت، مرد کا ضروری امور کے علاوہ رابطہ، اختلاط معاشرتی فساد کا موجب بنتا ہے۔
حجت الاسلام نقوی نے کہا کہ قرآن میں واضح حکم ہے کہ عورت نامحرم سے بات کرتے وقت ایسا لہجہ اختیار کرے جس میں جذبات کی عکاسی نہ ہو اسلام عظیم ثقافت سے مالا مال دین ہے جو زندگی کے ہر قدم پر رہنمائی کرتا ہے۔ سید الانبیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم، اہلبیت اطہارؑ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی تربیت یافتہ مسلمان خواتین کی مثالیں موجود ہیں۔ حضرت علی ؑ کے ہمسایہ کا کہنا تھا کہ طویل عرصہ کی ہمسائیگی کے باوجود کبھی علی کی بیٹیوں کی آواز نہ سنی۔19 رمضان 40 ہجری کو جب امیرالمومنین ؑ کو محراب مسجد سے زخمی حالت میں گھر لایا گیا تو اپنے وفادار ترین اصحاب کو بھی واپس جانے کا کہا کہ کہیں بیٹیوں کے رونے کی آواز نہ سن لیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم غیرت و حمیت کی اس عظیم تہذیب کے وارث ہیں مگر افسوس کہ ہزار کثافتوں سے آلودہ بھارتی و مغربی ثقافت نے ہمیں یہاں لاکھڑا کیا کہ دلائل سے قائل کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے کہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں نامحرم لڑکوں سے اظہار محبت نہ کریں۔ میڈیا اس حوالے سے اللہ اور ملک کے قانون، اسلامی تہذیب اور مشرقی روایات کے تناظر میں اس بے حیائی کی حوصلہ شکنی کرے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰