تحریر: م ف حسینی
ماہ رمضان میں داخل ہونے کے شرائط: ماہ رمضان کی برکات سے فیض یاب ہونے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے: ایک ماہ رمضان کا ہونا اور دوسرا انسان کی ظرفیت اور گنجائش کی وسعت۔ یعنی انسان ماہ رمضان میں داخل ہونے کے لئے تیار ہو اور اس مبارک مہینہ کی خاص برکات کا معتقد ہو۔ اگر انسان زبان سے کہے کہ ماہ رمضان، رحمت، مغفرت اور برکت کا مہینہ ہے، لیکن دل سے اس بات کا معتقد نہ ہو تو اس مہینے سے متعلق برکات کو حاصل نہیں کرپائے گا۔ جب اس مہینے کا دوسرے مہینوں سے فرق ہے تو اس میں جو اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے وہ بھی دوسرے مہینوں سے بڑھ کر ہے، جو خدا اس مہینے کو دوسرے مہینوں پر فضیلت دے سکتا ہے، وہی خدا اس مہینے میں نیکیوں کے ثواب کو بڑھا بھی سکتا ہے، یہاں تک کہ عمل انجام دئیے بغیر بھی ثواب دیتا ہے، سانسیں انسان کے اختیار سے ہٹ کر چل رہی ہیں تو تسبیح لکھی جارہی ہے، انسان سو رہا ہے تو عبادت لکھی جارہی ہے۔ لہذا بخشش و عطا کی فراوانی کی خبر سُن کر اس کا انکار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ عطا کرنے والا کریم، سخی اور لامحدود خزانوں کا مالک ہے۔
ماہ رمضان میں سانسیں تسبیح شمار ہوتی ہیں: ثواب عموماً اختیاری کام پر دیا جاتا ہے، سانس کا جاری رہنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے اور نہ انسان اسے زیادہ دیر تک روک سکتا ہے۔ لیکن ماہ رمضان المبارک کی فضیلت اتنی زیادہ ہے اور رحمت الہی کا نزول اسقدر بھرپور ہے کہ اللہ تعالی غیراختیاری عمل کو بھی تسبیح شمار کرتا ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ سانسیں اس لیے تسبیح شمار ہوتی ہیں کہ روزہ کا ارادہ کرنا اور ماہ رمضان کی حرمت کا خیال رکھنا، انسان کو ایسے عالَم میں داخل کردیتا ہے جہاں انسان نفس امّارہ سے جنگ کرتا ہے، ایسی حالت میں انسان کی حیات کا ہر نقطہ، ایسی حیات ہے جو اللہ کی عین تسبیح ہے، جیسا کہ ملائکہ کی جنس، تسبیح ہے یعنی اللہ کی طرف توجہ کرنا اور اسے عظیم سمجھنا اور خود کو نہ دیکھنا، اور روزہ دار ایسے عالَم میں داخل ہوجاتا ہے۔[2]
تسبیح کے معنی: تسبیح کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کو سلبی صفات اور ہر طرح کے ضعف اور محتاجی سے مقدس اور پاک و منزہ سمجھا جائے۔[3] تسبیح کا واضح ترین مصداق "سبحان اللہ" کا ذکر ہے۔
تسبیح کا ثواب: تسبیح اور سبحان اللہ کی فضیلت کے بارے میں کئی احادیث نقل ہوئی ہیں، ان میں سے ایک کا یہاں پر تذکرہ کرتے ہیں۔ حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: "مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ غَرَسَ اللَّهُ لَهُ بِهَا شَجَرَةً فِی الْجَنَّةِ وَ مَنْ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ غَرَسَ اللَّهُ لَهُ بِهَا شَجَرَةً فِی الْجَنَّةِ وَ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ غَرَسَ اللَّهُ لَهُ بِهَا شَجَرَةً فِی الْجَنَّةِ وَ مَنْ قَالَ اللَّهُ أَکْبَرُ غَرَسَ اللَّهُ لَهُ بِهَا شَجَرَةً فِی الْجَنَّةِ"[4]، "جو شخص کہے: "سبحان اللہ"، اللہ اس کے لئے اس کے بدلے میں ایک درخت جنت میں لگاتا ہے اور جو کہے: "الحمدللہ"، اللہ اس کے لئے اس کے بدلے میں ایک درخت جنت میں لگاتا ہے اور جو کہے: "لا الہ الا اللہ"، اللہ اس کے لئے اس کے بدلے میں ایک درخت جنت میں کالگاتا ہے اور جو کہے: "اللہ اکبر"، اللہ اس کے لئے اس کے بدلے میں ایک درخت جنت میں اگاتا ہے۔
ماہ رمضان میں نیند عبادت شمار ہے: جب روزہ دار کی نیند جو بالکل بے خبری کی کیفیت ہے، عبادت ہے تو اس کی بیداری جو تلاوتِ قرآن، نماز اور دعائیں پڑھنے میں گذرے، وہ تو اور زیادہ بڑھ چڑھ کر عبادت ہے۔ خصوصاً نماز شب کہ جس کی اس مہینہ میں توفیق آسانی سے نصیب ہوجاتی ہے کہ انسان اذان سے پہلے جاگ کر تہجد اور نماز شب میں مصروف ہوسکتا ہے جو دنیا و آخرت میں انسان کے لئے مفید ہے۔[5]
ماہ رمضان میں عمل قبول ہوتا ہے: قبول اور صحیح ہونے میں فرق یہ ہے کہ ہوسکتا ہے عمل صحیح ہو، لیکن بارگاہ الہی میں قبول نہ ہو، عمل تب صحیح ہوتا ہے کہ اس کے تمام اجزاء اور شرائط بجالائے جائیں، لیکن عمل کے قبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس عبادت میں روح پائی جاتی ہے اور عبادت کی روح، حضورِقلب ہے جو فحشا اور منکر سے منع کرتی ہے، اگر انسان عبادت کے بعد گناہ کا ارتکاب کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی عبادت قبول نہیں ہوئی، روزے کی روح تقوی ہے، اگر ماہ رمضان کے بعد انسان کا تقوی اور خوفِ خدا بڑھ جائے تو روزے قبول ہوئے ہیں ورنہ اس کی صرف شرعی ذمہ داری ادا ہوئی ہے۔[6] دعا اس مہینےمیں مستجاب ہوتی ہے کیونکہ روزہ دار کا حضور قلب زیادہ ہوتا ہے اورانسان کی جتنی اللہ کی طرف توجہ زیادہ ہو، دعا کے مستجاب ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔[7]
بعض علماء کا کہنا ہے کہ جو عمل اللہ کی رضا کے لئے بجالاتے ہیں، وہ قبول ہوتے ہیں، کیونکہ اس مہینے میں اللہ اور بندے کے درمیان حجاب کم ہوجاتے ہیں اور اللہ اپنے اور اپنے عبد کے درمیان حجابوں کو خاص طور پر ہٹا دیتا ہے تا کہ وہ راستہ جو بندے چاہتے ہیں کہ اللہ اور بندوں کے درمیان کھل جائے، وہ کھل جائے اور چاہے ایک بار ہی، اللہ سے رابطہ کی لذت اور معنی کا ادراک کرلیں۔
ماہ رمضان میں دعا مستجاب ہوتی ہے: آیت اللہ مکارم شیرازی (حفظہ اللہ) " وَدُعاؤُکُم فِیه مُسْتَجابٌ"، "اور تمہاری دعا اس (مہینہ) میں مستجاب ہے" کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: کیونکہ خداوند نے سورہ بقرہ میں روزےکی آیات کو جو پے در پے ہیں بیان کیا ہے " یَا أَیُّهَا الَّذِینَ ءَامَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ..." پھر فوراً اس کے بعد والی آیت میں فرمایا ہے:"وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُونَ"[8]، " اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (آپ کہہ دیں) میں یقینا قریب ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا و پکار کو سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ تو ان پر لازم ہے کہ وہ میری آواز پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (یقین رکھیں) تاکہ وہ نیک راستے پر آجائیں"[9]، اس آیت کا سابقہ آیات سے تعلق ہے یعنی روزہ رکھنے سے انسان کی دعا مستجاب ہوتی ہے روزہ دار شخص، اللہ کا محبوب ہے اور اللہ اپنے محبوب کی دعا رد نہیں کرتا۔[10] خطبہ شعبانیہ میں اگلے فقرے دعا کے بارے میں بیان ہوئے ہیں، جن پر اگلے مضمون میں گفتگو کی جائے گی۔
نتیجہ: ماہ رمضان اللہ تعالی کی اتنی بھرپور رحمت کا مہینہ ہے جس میں حتی سانس لینا تسبیح شمار ہوتا ہے اور سونا عبادت شمار ہوتا ہے، عمل قبول ہوتے ہیں اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں، جب سونا عبادت ہے تو بیداری میں عبادت کرنے کی فضیلت تو اور زیادہ بڑھ چڑھ کر ہے، اس مبارک مہینے میں جب اتنی آسانی سے ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے تو روزہ دار کو چاہیے کہ اپنا زیادہ تر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہے اور نیک اعمال انجام دے کیونکہ اس مہینے میں اعمال قبول ہوتے ہیں اور دعائیں بھی بہترین طرح کی مانگے، کیونکہ اس مہینے میں دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] عیون أخبار الرضا (علیہ السلام)، شیخ صدوق، ج2، ص265.
[2] رمضان دریچه رؤیت، اصغر طاہرزادہ، ص79۔
[3] التبیان، طوسی، ج۶، ص۴۴۴ سے اقتباس۔
[4] ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، شیخ صدوق، ج1، ص11۔
[5] ماخوذ از: گفتار معصومین (علیهم السلام)، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج2، ص123۔
[6] ماخوذ از: گفتار معصومین (علیهم السلام)، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج2، ص123۔
[7] ماخوذ از: گفتار معصومین (علیهم السلام)، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج2، ص123۔
[8] سورہ بقرہ، آیت 186۔
[9] ترجمہ مولانا شیخ محسن نجفی صاحب۔
[10] ماخوذ از: گفتار معصومین (علیهم السلام)، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج2، ص1244۔
/۹۸۸/ ن۷۰۱